ایک نئے سائنسی مقالے کے مطابق پہلے سے موجود تصور کے برعکس انسانوں میں شراب پینے کی خاصیت کم ہے، جب کہ جانور زیادہ پیمانے پر ایتھنول (الکوحل) استعمال کرتے ہیں۔
اگرچہ زیادہ پکے ہوئے پھل (جن میں فرمینٹیشن سے الکوحل کی مقدار بڑھ جاتی ہے) کھانے کے بعد جنگلی جانوروں کے مدہوش انداز میں برتاؤ کرنے کی کہانیاں اکثر سرخیوں میں آتی ہیں لیکن ایسا رویہ زیادہ تر غیر معمولی اور حادثاتی سمجھا جاتا تھا۔
تاہم ماہرین ماحولیات نے ’انسانوں پر مرکوز‘ اس نظریے کو سائنسی مقالوں کے ایک نئے جائزے میں چیلنج کیا ہے جو حال ہی میں سائنسی جریدے ’ٹرینڈز اِن ایکولوجی اینڈ ایولوشن‘ میں شائع ہوا۔
ماہرین کا استدلال ہے کہ چونکہ ایتھنول قدرتی طور پر تقریباً ہر ایکو سسٹم میں موجود ہوتا ہے اس لیے یہ ممکنہ طور پر زیادہ تر وہ جانور باقاعدگی سے استعمال کرتے ہیں جو پھل اور جنگلی پھول کھاتے ہیں۔
محققین کو بن مانسوں سے لے کر نیولوں تک جانوروں کا ایسا متنوع گروہ ملا جن کے بارے میں سائنس دانوں کا خیال ہے کہ انہوں نے اپنے الکوحل سے بھر پور کھانوں کو چھوڑنے کی بجائے انہیں اپنی خوراک میں شامل کر لیا۔
انہوں نے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا کہ ایتھنول نے بہت سے جانوروں کی انواع کے ارتقا اور ان کے درمیان ہم آہنگ تعلقات کو تشکیل دیا۔
ایکسیٹر یونیورسٹی میں رویے سے متعلق ماحولیات کی ماہر ڈاکٹر کمبرلی ہاکنگز نے کہا: ’ہم اس انسانی نقطہ نظر سے ہٹ رہے ہیں کہ ایتھنول (شراب) ایک ایسی چیز ہے جسے صرف انسان استعمال کرتے ہیں۔
’یہ جانوروں کی قدرتی دنیا میں اس سے کہیں زیادہ استعمال میں ہے جتنا ہم نے پہلے سوچا تھا کیوں کہ زیادہ تر جانور، جو میٹھے پھل کھاتے ہیں، وہ ایتھنول کی کسی نہ کسی سطح کو استعمال کر رہے ہیں۔‘
ایتھنول پہلی بار تقریباً 10 کروڑ سال پہلے اس وقت وافر مقدار میں پایا جاتا تھا جب پھول دار پودوں نے میٹھے پھول اور پھل پیدا کرنا شروع کیے جو قدرتی خمیر سے فرمیٹ ہو جاتے تھے۔
قدرتی طور پر خمیر شدہ پھلوں میں عموماً ایک سے دو فیصد الکوحل پیدا ہو جاتی ہے، لیکن زیادہ پکنے والے پام کے پھلوں میں یہ شرح 10.2 فیصد تک پہنچ جاتی ہے۔
سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ اگرچہ جانوروں نے خمیر پیدا ہونے سے پہلے ہی ایتھنول کو میٹابولائز کرنے کی صلاحیت رکھنے والے جینز کو محفوظ کر لیا تھا، لیکن اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ ارتقا نے پھل اور پھول کھانے والے ممالیہ جانوروں اور پرندوں کے لیے اس صلاحیت میں اضافہ کر دیا تھا۔
کالج آف سینٹرل فلوریڈا سے وابستہ ماہر ماحولیات میتھیو کیریگن نے کہا کہ ’ماحولیاتی نقطہ نظر سے نشہ کرنا فائدہ مند نہیں کیونکہ آپ درختوں پر چڑھتے ہیں یا رات کے وقت شکاریوں سے گھرے ہوتے ہیں، یہ آپ کے جینز کو منتقل نہ کرنے کا ایک نسخہ ہے۔
’لیکن یہ ان انسانوں کے برعکس ہے جو نشہ کرنا چاہتے ہیں لیکن حقیقت میں کیلوریز نہیں چاہتے۔ غیر انسانی نقطہ نظر سے جانور کیلوریز چاہتے ہیں لیکن نشہ نہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم محققین کا کہنا ہے کہ ایتھنول کا استعمال جنگلی جانوروں کے لیے کئی فائدہ مند بھی ہو سکتا ہے۔
سائنس دانوں نے کہا کہ کیلوریز حاصل کرنے کے علاوہ ایتھنول ان کے لیے طبی فوائد کا کام بھی کر سکتا ہے۔
انہوں نے پھلوں کی مکھیوں کی طرف اشارہ کیا کہ وہ جان بوجھ کر ایتھنول والے مواد پر اپنے انڈے دیتی ہیں جو ان کے انڈوں کو پراسائٹس سے بچاتا ہے اور اس کے لاروا اپنے اندر ایتھنول کی مقدار کو بڑھا لیتے ہیں جب بھڑیں انہیں کھانے کے لیے پہنچتی ہیں۔
یونیورسٹی آف ایکسیٹر میں رویے کی ماہر ماحولیات انا باؤلینڈ نے کہا کہ ’علمی پہلو پر ان خیالات کو آگے بڑھایا گیا ہے کہ ایتھنول اینڈورفین اور ڈوپامائن سسٹمز کو متحرک کر سکتا ہے جس سے راحت کے احساسات پیدا ہوتے ہیں اور اس طرح اس کے سماجی لحاظ سے فوائد ہو بھی سکتے ہیں۔‘
تاہم انہوں نے کہا کہ ’اس کی جانچ کرنے کے لیے ہمیں واقعی یہ جاننے کی ضرورت ہوگی کہ آیا ایتھنول جنگلی میں جسمانی ردعمل پیدا کر رہا ہے یا نہیں۔‘
تاہم حشرات میں کچھ ایسے معاملات ایتھنول کے استعمال کے ساتھ سماجی تعلق کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
2012 کی ایک تحقیق میں نر پھلوں کی مکھیوں کو ایک ساتھی کی طرف سے مسترد کیے جانے کے بعد اس کی جانب سے الکوحل کے استعمال میں اضافہ پایا گیا جب کہ اس انواع کی مادہ ایتھنول کے استعمال کے بعد اپنے ساتھی کے انتخاب میں کم دلچسپی کا اظہار کرتی ہوئی پائی گئیں۔
اور ایک اور نظریہ جو پہلی بار 2014 میں پیش کیا گیا تھا، جسے ’ڈرنکن منکی‘ کے مفروضے کے نام سے جانا جاتا ہے، میں برکلے کے ماہر حیاتیات پروفیسر رابرٹ ڈڈلی نے کہا کہ شراب کا ذائقہ انسانوں کے لیے لاکھوں سال پرانا ہے جب اعلیٰ پیشواؤں نے دریافت کیا کہ ایتھنول کی بو انہیں پکے، خمیر شدہ اور غذائیت سے بھرپور پھلوں کی پہچان کراتی ہے۔
اگرچہ وہ اس بات کا ثبوت فراہم کرنے سے قاصر تھے کہ آیا بندر اور بن مانس حقیقت میں خمیر شدہ پھل تلاش کرتے تھے یا ایسا الکحول کو استعمال کرنے کے لیے تھا لیکن پاناما میں پائے جانے والے بندر، بلیک ہینڈڈ سپائڈر منکی، کے بارے میں 2022 میں کی گئی ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ جانور معمول کے مطابق جوبو ٹری پھلوں کی تلاش کرتے ہیں جن میں پک کر کافی زیادہ الکوحل کی مقدار ہوتی ہے۔
© The Independent