جس ملک میں آئین شکنی ہو، اشرافیہ امیراور عوام غریب ہو، غربت بدامنی سے لوگ بے حال ہو، امیر جرم کرے تو این آر او مل جائے غریب جرم کرے تو اس کو رسوا کیا جائے جہاں انصاف کی کمی ہو اور جمہوریت بھی تسلسل سے نا چلتی ہو وہاں لاقانونیت، افراتفری، انتہاپسندی اور غصہ جنم لے لیتا ہے۔
ہمارے ملک میں یہ غصہ بہت عرصے سے پل رہا ہے جو اب اکثر لاوے کی طرح پھٹ پڑتا ہے۔
دیکھنے والے انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوا۔ اس انتہاپسندی کے بیج بہت سال پہلے بوئے گئے تھے اب فصل پک کر تیار ہو گئی ہے اور کاٹنا سب کو پڑے گی۔ اشرافیہ کی اپنی جائیدادیں بچے تو ملک سے باہر ہیں وہ بھی حالات کو بدلتا دیکھ کر فلائٹ پکڑ کر نکل جاتے ہیں۔
جس جگہ کو انہوں نے تجربہ گاہ بنا رکھا ہے وہاں رہنا آپ نے اور میں نے ہے کیونکہ ہم یہاں کے شہری ہیں ہماری کوئی لندن امریکہ میں کوئی جائیداد نہیں۔ ان کے تجربوں کی وجہ سے معیشت بدحال ہے، انسان تو کیا جانور بھی اس ملک میں محفوظ نہیں ہیں۔ ان تجربات کے دوران ملک کا ہر ادارہ زبوں حالی کا شکار ہو گیا ہے اور عوام غربت کی سطح سے نیچے چلے گئے ہیں۔
لوگوں میں بےخوفی اتنی بڑھ گئی ہے کہ وہ جرم کرتے وقت سوچتے ہی نہیں کہ ان کو اس جرم کی سزا ملے گی۔ ان کی دولت ان کی سزا کے درمیان آ جاتی۔ اس ہی پیسے کی وجہ سے ان کو حمایتی بھی مل جاتے ہیں جوکہ ان کے جرائم کی پردہ پوشی کرتے ہیں۔
ملک میں نظام تو ہے نہیں، ہر دو سال بعد چلتی ہوئی حکومت کو سازش کرکے گرا دیا جاتا ہے، اس لیے بہت سے لوگ نظام میں اس خامی کا فائدہ اٹھا کر اپنی ناجائز قوت بنا لیتے ہیں اور لوگوں پر ظلم کرتے ہیں۔ انسان کیا، ان کے قہر سے تو جانور بھی بچ نہیں پاتے۔
ابھی کراچی میں ایک افسوس ناک واقعہ ہوا۔ ایک چھوٹا سا کتا رہائشی علاقے میں گھس آیا، اس کو پکڑ اس پر تشدد کیا گیا اور پھر اس کو بالائی منزل سے نیچے پھینک دیا گیا۔
اس سب ظلم کو کیمرے پر ریکارڈ کر لیا گیا۔ جب یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر منظر عام پر آئی تو لوگ ان کی گرفتاری کا مطالبہ کرنے لگے، جرم کرنے والے غریب تھے تو قانون کی گرفت میں آ گئے۔
تاہم جانوروں پر ظلم رک نہیں سکا کیونکہ ہم بحیثیت قوم ہی جانوروں کو ناپسند کرتے ہیں۔ گلی سے گزرتے بلی کتے کو بلاوجہ پتھر مار دیتے ہیں۔ چرتے ہوئے مویشوں کو تنگ کرتے ہیں یہاں تک کہ خطرناک جانوروں سے بھی پنجہ آزمائی کی کوشش کرتے ہیں۔ اڑتی تتلی پکڑ لی کتاب میں بند کر دی، پتنگے کو پکڑ لیا، شہد کی مکھیوں کے چھتے میں ڈنڈا مار دیا۔ یہ کام ہمارے ملک میں مشغلے کے طور پر کیے جاتے ہیں۔ پرندے پکڑ کر پنجرے میں بند کردئے، بندر بھالو نچوا کر تماشا لگا لیا۔ مرغے،کتوں، سانپ نیولوں کی لڑائی دیکھ کر خوش ہولیے۔ یہ سب کام عام طور پر کیے جاتے ہیں ان کو برا بھی نہیں سمجھا جاتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
قدرت نے ہم سب کو اس ماحول میں پیدا کیا ہے تو کوئی مصرف ہو گا اس لیے بہتر ہے اشرف المخلوقات ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے ان سب کو بھی جینے دیں۔ پرغصہ نفرت تکبر طاقت کا گھمنڈ ابل ابل کر لاوے کی طرح سامنے آ رہا ہے اور اس ہی نفرت غرور میں سندھ میں ایک اونٹ کی ٹانگ کاٹ دی گئی۔
بیچارے اونٹ کو کیا پتہ انسان نے زمین کو تقسیم کر لیا ہے وہ کسی دوسرے کی زمین پر چرنے نہیں جا سکتا۔ بااثر لوگوں نے اس کی ٹانگ کاٹ دی تاکہ وہ آئندہ ان کی زمین پر آ کر کچھ کھا نہ سکے۔
یہ واقعہ اتنا دل خراش تھا کہ ہر کوئی اس کی مذمت کرنے لگا۔ وہ لوگ بھی بول اٹھے جو ان دو سال میں ہونے والے ہر جرائم کو ’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘ کے نعرے کے شور میں دبا دیتے تھے۔ سنا ہے اوںٹ کی ٹانگ کاٹنے والے بااثر وڈیرے اور اونٹ کے مالک کے درمیان تصفیہ ہو گیا ہے۔ اس صلح میں اونٹ کا کیا ہو گا اس کو انصاف کیسے ملے گا، یہ سوال جواب طلب ہے۔
سندھ میں حالیہ سالوں میں بہت سے صحافی قتل ہوئے ہیں ان کو انصاف نہیں ملا تو اونٹ کے مجرمان کیسے گرفت میں آئیں گے۔
جانوروں کے لیے کام کرنے والی کچھ تنظیمیں اس اونٹ کی مدد کر رہی ہیں لیکن اس پر ظلم کرنے والوں کو سزا کون دے گا یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔
سندھ میں حالیہ سالوں میں بہت سے صحافی قتل ہوئے ہیں ان کو انصاف نہیں ملا تو اونٹ کے مجرمان کیسے گرفت میں آئیں گے۔
جیسے جانور اس ملک میں محفوظ نہیں ویسے ہی انسان بھی یہاں محفوظ نہیں۔ کون کب اگلے ٹریفک سگنل پر ہمیں لوٹ لے، کیا معلوم کون کب کسی کی اندھی گولی کا شکار ہو جائے۔
غیر یقینی صورت حال ہے اور انتہا پسند اس صورت حال کا پورا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
سوات ایک سیاحتی مقام ہے ملک بھر سے لوگ یہاں گھومنے پھرنے جاتے ہیں۔ وہاں ایک ایسا سانحہ ہوا کہ سیاحوں کے دل ڈر سے بھر گئے۔
سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے ایک سیاح پر الزام عائد کیا گیا کہ اس نے توہین مذہب کی ہے۔ ہجوم نے اس شخص کو قتل کیا پھر اس کی لاش کو جلا دیا۔ تھانے کو بھی آگ لگا دی اور اس کی جلی ہوئی لاش کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر پھیلا دی۔
یہ سب اتنا دردناک ہے کہ بیان سے باہر ہے۔ انسان کو یوں قتل کرنا پھر اس کو جلا دینا ایک بہت بڑا جرم ہے۔
کیا ہم ایک قوم نہیں کیا ہم ایک ہجوم ہیں جس کی نفرت غصہ کسی کو بھی نگل سکتا ہے۔ اس پہلے بھی مشعال خان کو ہجوم نے ان ہی الزامات کی بنیاد پر قتل کیا۔ لاہور اچھرہ میں بھی لڑکی کو ہجوم نے اسی طرح نرغے میں لے لیا تھا لیکن وہ خوش قسمتی سے بچ گئی۔
پر سیالکوٹ کا محمد سلیمان کو ہجوم نگل گیا۔ یہاں تک کہ اس کی والدہ نے بھی اس سے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے۔
اب اس سلسلے کو کون روکے جب ملک میں سیاسی عدم استحکام ہو عدالتیں مقدمات کو سالوں نہ سنتی ہو ادارے اپنے کام کے بجائے دیگر کاموں میں الجھے ہوئے ہوں اور جہاں لکھنے اور بولنے والے طاقتور کے ساتھ ہوں، وہاں یہ سلسلہ شاید ہی تھم پائے۔
ملک میں نہ انسان محفوظ ہیں نہ جانور، لیکن سب اچھا ہے کہ اشتہارات اکثر حکومت کی طرف سے شائع ہوتے ہیں۔ ریاست خود کو جواب دہ نہیں سمجھتی، طاقتور اشرافیہ بھی جواب دہ نہیں۔
نفرت کے یہ بیج کس نے بوئے اور ہم کیوں کاٹ رہے ہیں، اس کے جواب شاید ہی کبھی مل پائیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔