شیر کے شکار گلیڈی ایٹر کا ڈھانچہ، جنگلی درندوں سے لڑائی کا پہلا ثبوت دریافت

ماہرین آثار قدیمہ نے کہا ہے کہ ڈھانچے کے فرانزک معائنے میں ’خلاف معمول‘ گہرے سوراخ اور کمر کی ہڈی پر دانتوں کے نشانات پائے گئے جنہیں اس تحقیق میں ’انتہائی دلچسپ دریافت‘ قرار دیا گیا۔

ہاکڈن ہیلمٹ برطانیہ میں رومن گلیڈی ایٹر باقیات کا واحد زندہ بچ جانے والا ٹکڑا ہے (برٹش میوزیم)

ماہرین آثار قدیمہ نے کہا ہے کہ ایک رومن گلڈی ایٹر کے ڈھانچے نے پہلی بار انسان اور بڑے جسامت کے شیر کے درمیان لڑائی کے جسمانی شواہد فراہم کیے ہیں۔

ماہرین آثار قدیمہ نے پلوس ون نامی جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق میں کہا ہے کہ یہ ڈھانچہ غالباً ایک ایسے مرد کا ہے جس کی عمر موت کے وقت 26 سے 35 سال کے درمیان تھی، اس کی کمر کی ہڈی پر کسی بڑے درندے کے دانتوں کا نشانات ہیں جو شیر کے کاٹنے کے بھی ہو سکتے ہیں۔

ماہرینِ آثار قدیمہ نے کہا ہے کہ یہ باقیات برطانیہ کے شہر یارک کے قریب ڈری فیلڈ ٹیرس کے قبرستان سے ملی ہیں، جہاں 2004 میں 80 سے زائد ڈھانچے دریافت کیے گئے۔

ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ اس مقام پر لوگوں کو دوسری صدی عیسوی کے آغاز سے چوتھی صدی عیسوی کے آخر تک دفن کیا گیا جس کا مطلب ہے کہ مذکورہ شخص کو تقریباً 1725 سے 1825 سال قبل دفن کیا گیا۔

ماہرین آثار قدیمہ نے کہا ہے کہ ڈھانچے کے فرانزک معائنے میں ’خلاف معمول‘ گہرے سوراخ اور کمر کی ہڈی پر دانتوں کے نشانات پائے گئے جنہیں اس تحقیق میں ’انتہائی دلچسپ دریافت‘ قرار دیا گیا۔

نئی تحقیق کے مرکزی مصنف اور آئرلینڈ کی مینوتھ یونیورسٹی سے پروفیسر ٹم تھامپسن نے کہا کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ یہ پہلا موقع ہے جب ایسے باقیات پر دانتوں سے کاٹنے کی شناخت ہوئی۔‘

انہوں نے کہا کہ اب تک آثار قدیمہ کے ماہرین نے صرف چند ہی ایسے ڈھانچے دریافت کیے جن کی تصدیق گلیڈی ایٹر کی باقیات کے طور پر ہو سکی اور یہ سب ان علاقوں سے ملے ہیں جو کبھی رومن سلطنت کا حصہ تھے۔

پروفیسر آف اینتھروپولوجی نے کہا کہ ’کئی برسوں تک رومن گلیڈی ایٹر کی لڑائی اور جانوروں کے تماشوں کے بارے میں ہمارا علم زیادہ تر تاریخ اور فن پاروں پر منحصر رہا۔‘

’اس دریافت نے پہلی بار براہ راست جسمانی ثبوت فراہم کیے کہ اس دور میں ایسے مقابلے واقعی ہوتے تھے اور اس سے اس خطے میں رومن تفریحی ثقافت کے بارے میں ہمارا تصور بدل جاتا ہے۔‘

ماہرین آثار قدیمہ نے کہا ہے کہ ’محققین نے گلیڈی ایٹر کی باقیات پر زخموں کا جائزہ لینے کے لیے تھری ڈی سکیننگ کا استعمال کیا جس کا سر قلم کیا گیا تھا‘ ماہرین آثار قدیمہ نے کہا ہے کہ ’جو چیز ان کے لیے دلچسپی کا باعث بنی وہ کولہے کی ہڈیوں پر غیر معمولی گول نشانات تھے۔‘

محققین نے اس گلیڈی ایٹر کی باقیات پر موجود زخموں کا جائزہ لینے کے لیے انہیں تھری ڈی سکین کا استعمال کیا جس کا سر قلم کیا گیا تھا۔

ان کے لیے سب سے زیادہ دلچسپی کی بات کولہے کی ہڈیوں پر خلاف معمول گول نشانات تھے۔ انہوں نے ان نشانات کو سکین کیا اور ان کا موازنہ چڑیا گھر کے جانوروں کے ہڈیوں کو چبانے سے بننے والے نشانات سے کیا۔ انہیں معلوم ہوا کہ چیتے، شیر، باگھ اور تیندوے کے دانتوں کے نشانات اس شخص کے ڈھانچے پر پائے جانے والے نشانات سے بہت مماثلت رکھتے ہیں۔

انہوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ یہ چوٹیں موت کے وقت لگیں اور یہ کسی بڑے درندے کے ذریعے اس شخص کو زمین پر گھسیٹنے کی وجہ سے آئیں۔

پروفیسر تھامپسن نے کہا کہ ’ہم یہ بتا سکتے ہیں کہ یہ کاٹنے کے نشانات موت کے وقت کے آس پاس کے ہیں۔ یہ ایسا معاملہ نہیں کہ درندے نے کسی انسان کی موت کے بعد اسے کھایا ہو۔ یہ نشانات براہ راست اس کی موت سے جڑے ہوئے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ کمر کی ہڈی وہ حصہ نہیں جس پر شیر عموماً حملہ کرتا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ گلیڈی ایٹر لڑ رہا تھا اور غالباً زخمی یا بے بس ہو چکا تھا، جس کے بعد شیر نے اسے کولہے پر کاٹا اور وہاں سے پکڑ کر گھسیٹا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ ڈھانچہ ایک قبر سے دریافت ہوا جہاں دو دیگر انسانوں کی باقیات بھی تھیں اور اوپر گھوڑے کی ہڈیاں رکھی ہوئی تھیں۔ پہلے کے تجزیے سے یہ اندازہ ہوا کہ یہ کسی بیسٹیاریئس کا ڈھانچہ ہے، یعنی ایسا گلیڈی ایٹر جسے درندوں کے ساتھ مقابلے کے لیے بھیجا جاتا تھا۔

یونیورسٹی آف یارک میں اوسٹیوآرکیالوجی کی لیکچرر مالن ہولسٹ نے کہا کہ 30 برسوں میں سینکڑوں ڈھانچوں کا تجزیہ کرنے کے باوجود انہوں نے ایسا منظر کبھی نہیں دیکھا۔

اس تحقیق کی شریک مصنفہ، مس ہولسٹ نے اپنے بیان میں کہا کہ ’کاٹنے کے نشانات غالباً شیر کے ہیں، جو اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ قبرستان میں دفن کیے گئے یہ ڈھانچے گلیڈی ایٹرز کے تھے، نہ کہ سپاہیوں یا غلاموں کے جیسا کہ پہلے سمجھا جاتا تھا، اور رومن دنیا میں انسان اور بڑے درندوں کے درمیان لڑائی یا تماشے کے ماحول میں براہ راست مقابلے کی پہلی بار ہڈیوں کے ذریعے تصدیق ہوئی۔‘

اضافی تجزیے سے معلوم ہوا کہ اس شخص کی ریڑھ کی ہڈی اور کندھے پر زیادہ وزن اٹھانے کی وجہ سے چوٹیں زخم آئے۔ اس کے علاوہ اس کے پھیپھڑوں اور رانوں میں سوزش کے آثار بھی پائے گئے، اور اس کی ہڈیوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بچپن کی غذائی کمی سے صحت یاب ہو چکا تھا۔

ہولسٹ کے بقول: ’یہ ایک انتہائی دلچسپ دریافت ہے کیونکہ اب ہم ان گلیڈی ایٹرز کی اصل زندگی کے بارے میں بہتر اندازہ قائم کر سکتے ہیں، اور ساتھ ہی یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ یارک جیسے شہروں کے مقابلے کے میدانوں میں بڑے درندے اور ممکنہ طور پر دیگر کمیاب جانور بھی موجود تھے، اور انہیں بھی اپنی جان کے خطرے سے بچنے کے لیے مقابلہ کرنا پڑتا تھا۔‘

’اکثر ہمارے ذہن میں یہ تصور ہوتا ہے کہ اس طرح کی لڑائیاں روم کے عظیم کولوسیئم جیسے مقامات پر ہی ہوتی تھیں، لیکن تازہ ترین دریافتوں سے پتا چلتا ہے کہ یہ مقابلے رومن سلطنت کے مرکز سے بہت دور تک پھیلے ہوئے تھے۔ غالباً رومن یارک میں بھی ایک دائرہ کی شکل کا تھیئٹر موجود تھا لیکن اسے ابھی تک دریافت نہیں کیا جا سکا۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق