میانمار: جب زلزلے نے صدیوں پرانے آثار کو ملبے میں بدل دیا

گذشتہ ماہ میانمار میں آنے والے شدید زلزلے نے صدیوں پرانے ثقافتی ورثے کو تباہ کر ڈالا۔ بلند و بالا بدھ مجسمے، آسمان سے باتیں کرتے سٹوپہ اور قدیم خانقاہیں سب ملبے کا ڈھیر بن گئے۔

گذشتہ ماہ میانمار میں آنے والے شدید زلزلے نے صدیوں پرانے ثقافتی ورثے کو تباہ کر ڈالا، بلند و بالا بدھ مجسمے، آسمان سے باتیں کرتے سٹوپہ سب ملبے کا ڈھیر بن گئے۔

7.7  شدت کے اس زلزلے نے مرکزی شہر میں نگیئون کے قدیم پاگودا کو زمیں بوس کر دیا، نگیئون میانمار کا آخری شاہی دارالحکومت تھا۔

یہ تباہی 3,700 سے زائد جانوں کے ضیاع کا سبب بنی۔ نگیئون پاگودا پر 200 سال تک ایک مقدس سانپ کی تصویر موجود تھی اور اب یہ ملبے میں دبی ہوئی ہے۔

اپنی ساری زندگی یہاں عبادت کرنے والی 83 سالہ بھکشو کھن سین نے بتایا: ’جب زلزلہ آیا، میں نے نگیئون پاگودا سے دعا کی کہ وہ مجھے بچائے لیکن میرے بیٹے نے بتایا کہ پاگودا اب باقی نہیں رہا۔ اب مجھے اصل حالت میں اس کا واپس آنا ممکن نہیں لگتا۔‘

28  مارچ کو آنے والے اس زلزلے کے بعد 60 ہزار سے زائد افراد خیموں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور 20 لاکھ افراد کو انتہائی انسانی ضروری امداد کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس قدرتی آفات کے نتیجے میں تین ہزار سے زائد خانقاہیں اور پانچ ہزار پاگودا تباہ ہو گئے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میانمار کا دوسرا سب سے بڑا شہر منڈلی اور اس کے قریب واقع سیگینگ اور انوا کے علاقے اب تاریخی کھنڈرات میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ 360 سال تک ملک کا دارالحکومت رہنے والے انوا کا 75 فیصد ثقافتی ورثہ اس زلزلے میں تباہ ہو چکا ہے۔

ایک اور 49 سالہ بھکشو نے کہا: ’تاریخ سب سے قیمتی ہوتی ہے اور ہماری ثقافتی وراثت کا نقصان دل توڑ دینے والا ہے۔ اگر ہم اس کی مرمت بھی کر لیں تو بھی لوگ اسے اصل حالت میں محسوس نہیں کر سکیں گے۔‘

اب جب کہ میانمار کے عوام زندہ بچ جانے والوں کی بحالی میں مصروف ہیں، ثقافتی اور مذہبی ورثے کی بحالی کی کوئی منصوبہ بندی ابھی تک شروع نہیں کی گئی۔ اس زلزلے نے میانمار کی ثقافت اور تاریخ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اور اس کا اثر نہ صرف میانمار بلکہ دنیا بھر پر محسوس کیا جا رہا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا