فرانزک ایجنسی کو 10 لاکھ ڈی این اے اکٹھے کرنے کا ہدف: پنجاب

صوبائی محکمہ داخلہ کے ترجمان نے بتایا کہ ’اب فیصلہ کیا گیا ہے کہ اس کو ایس او پی بنا دیں کہ ہر سزا یافتہ مجرم کا ڈی این اے لے کر اس کا ایک ڈیٹا بیس بنا دیں تاکہ مستقبل میں کوئی جرم ہوتا ہے تو اس کو آسانی سے ٹریس کیا جاسکے۔‘

ایک فرانزک سائنسدان لاہور میں 13 جنوری 2015 کو پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی میں ڈی این اے اور سیرولوجی ڈیپارٹمنٹ میں نمونوں کا تجزیہ کر رہی ہیں۔ پنجاب حکومت نے پاکستان میں ایک پروگرام شروع کیا ہے جس میں فورینزک ماہرین کو 10 لاکھ سزا یافتہ مجرمان کے ڈی این اے کا ڈیٹا بیس جمع کرنے کا ہدف دیا گیا ہے (روئٹرز)

محکمہ داخلہ پنجاب نے فیصلہ کیا ہے کہ جیلوں میں موجود اور نئے سزا یافتہ مجرمان کے ڈی این اے نمونے اکٹھے کیے جائیں اور اس ریکارڈ کا ڈیٹا بیس بنایا جائے تاکہ سنگین جرائم کے ملزمان کی شناخت میں مدد مل سکے۔

محکمہ داخلہ پنجاب کے ترجمان توصیف صبیح گوندل نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’اس وقت پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کے پاس 60 ہزار ڈی این اے پہلے سے موجود ہیں جن میں سزا یافتہ مجرمان اور مشتبہ ملزمان شامل ہیں اور ان کے ڈی این اے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی درخواست پر حاصل کیے گئے ہیں۔ اب یہ ہدف 10 لاکھ کر دیا گیا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ پہلے سب سزا یافتہ مجرمان کا ڈی این اے نہیں لیا جا رہا تھا جب کسی کیس کو ٹریس کرنا ہوتا تھا، کسی مجرم کو پکڑنے اور اس کی شناخت کرنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے ادارے ان کا ڈی این اے ٹیسٹ کرتے تھے۔

صوبائی محکمہ داخلہ کے ترجمان نے بتایا کہ ’اب فیصلہ کیا گیا ہے کہ اس کو ایس او پی بنا دیں کہ ہر سزا یافتہ مجرم کا ڈی این اے لے کر اس کا ایک ڈیٹا بیس بنا دیں تاکہ مستقبل میں کوئی جرم ہوتا ہے تو اس کو آسانی سے ٹریس کیا جاسکے۔‘

توصیف کا کہنا تھا کہ ’پچھلے 10 سال میں فرانزک کے پاس 60 ہزارسزا یافتہ مجرمان یا مشتبہ ملزمان کے ڈی این اے اکٹھے ہوئے ہیں اور اب انہیں 10 لاکھ ڈی این اے اکٹھے کر کے ڈیٹا بیس بنانے کا ہدف دیا گیا ہے۔ ان میں تمام سزا یا فتہ مجرمان اور عادی مجرمان شامل ہوں گے جن کے ڈی این اے ٹیسٹ کیے جائیں گے۔‘

تو صیف نے بتایا کہ سیکریٹری داخلہ نور الامین مینگل کی ہدایت پر ماہرین کا ورکنگ گروپ تشکیل دے دیا گیا ہے جن کی پہلی ملاقات پیر کو ہوئی یہ ورکنگ گروپ مرکزی ڈی این اے ڈیٹابیس کے قیام کے لیے ماڈل تجویز کرے گا۔

ان کے مطابق اس ورکنگ گروپ کے سربراہ ڈائریکٹر جنرل پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی ڈاکٹر محمد امجد ورکنگ کو مقرر کیا گیا ہے جبکہ ممبران میں ڈائریکٹر سینٹر آف ایکسیلینس ان مالیکیولر بائیولوجی پروفیسر ڈاکٹر معاذ الرحمٰن، سربراہ بائیو میڈیکل سائینسز کنک ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی، پروفیسر ڈاکٹر نگہت یاسمین سربراہ بائیو میڈیکل سائینسز کنک ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی،  ڈی آئی جی اطہر وحید اور ڈائریکٹر ایڈمن پی ایف ایس اے ولید بیگ شامل ہیں۔

ترجمان محکمہ داخلہ پنجاب نے بتایا کہ ماہرین کا ورکنگ گروپ مرکزی ڈیٹا بیس کی تیاری اور طریقہ کار بارے اپنی تجاویز سیکرٹری داخلہ کو ایک ہفتے کے اندر پیش کرے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈی این اے کا مرکزی ڈیٹا بیس نظام انصاف کی کارکردگی کو بہتر بنانے میں معاون ہوگا۔ ڈیٹا بیس کی مدد سے ملزمان کی شناخت میں مدد ملے گی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ ساتھ عدالت کی معاونت سے مقدمات کے فیصلے جلد کیے جا سکیں گے۔

اس اقدام کی قانونی حیثیت

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حکومت پنجاب کے ڈی این اے ڈیٹا بیس بنانے کے اقدام کی قانونی حیثیت معلوم کرنے کے لیے جب پراسیکیوٹر جنرل پنجاب فرہاد علی شاہ سے رابطہ کیا تو اہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’قانون میں فرانزک سائنس ایجنسی رولز میں اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ ڈیٹا بیس بنانے کے لیے ہر سزا یافتہ مجرم یا مشتبہ ملزم کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا جا سکتا ہے۔‘

انہوں نے مثال دی کہ جیسے سب لوگوں کے فنگر پرنٹ نادرا کے پاس ہیں، بائیومیٹرک سب کا ہوا ہے اس لیے جب کہیں چوری ہوتی ہے وہاں سے فنگر پرنٹ ملتے ہیں تو وہ اسے نادرا کے ریکارڈ سے چیک کراکے میچ کیا جاتا ہے اور مجرم پکڑا جاتا ہے۔

’اسی طرح فرانزک سائنس ایجنسی ڈی این اے کا نمونہ اپنے ریکارڈ میں رکھ سکتی ہے کہ کہیں اگر کوئی واردات ہو اور ڈی این اے میچ کرنے میں آسانی ہو اور معلوم ہو سکے کہ مجرم کون ہے۔‘

فرہاد علی شاہ نے یہاں موٹر وے ریپ کیس کی مثال دی کہ ’اس کیس میں ایک مشتبہ ملزم کا ڈی این اے کا نمونہ پہلے سے ریکارڈ میں کسی اور کیس کے حوالے سے موجود تھا جب اس کا نیا نمونہ گیا تو وہ پرانے والے سے میچ کر گیا وہاں سے معلوم ہوا کہ وہ مشتبہ ملزم ہی اصل مجرم تھا اور وہ پکڑا گیا۔‘

ایڈوکیٹ احمر مجید نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پنجاب فرانزک سائنس اتھارٹی ایکٹ 2025 میں جو نئی ترمیم آئی ہے اس میں بظاہر ڈی این اے یا ڈیٹا بیس کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا۔ مگر اس قانون کے سیکشن پانچ جس میں پنجاب فرانزک سائنس اتھارٹی کی پاورز کا اس میں سیکشن دو آئی میں کہا گیا ہے فرانزک مواد کی جانچ کے لیے ایک مقررہ طریقے سے اس ریکارڈ کو برقرار رکھا جائے جس میں کسی جرم سے منسلک یا ملزم کی شناخت سے متعلق ریکارڈ موجود ہو۔‘

یعنی اس کے لیے رولز ڈرافٹ ہوں گے اور اس میں مزید واضح کیا جائے گا کہ کس کس کا ریکارڈ چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس میں آگے چل کر کوئی فہرست تیار کی جائے کیونکہ اگر دیکھا جائے تو پولیس آرڈر میں جو نئی ترمیم آئی ہے اس میں بھی فورتھ شیڈول کے اندر بھی ڈکیتی، چوری، قتل، ریپ، سوڈومی وغیرہ کی ایک فہرست دی گئی ہے اس لیے جب ڈی این اے کے ڈیٹا بیس کے لیے قوائد و ضوابط بنیں گے تو معلوم ہوگا کہ اس میں کس کس کا ڈی این اے لیا جائے گا۔

انسانی حقوق کی وکیل فاطمہ بٹ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اگرچہ پنجاب حکومت کے ڈی این اے ڈیٹا بیس بنانے کے اقدام کا مقصد فوجداری انصاف کے نظام کو مضبوط بنانا ہے، لیکن یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ یہ قدم پاکستان کی آئینی ضمانتوں اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی معیارات کی مکمل تعمیل کرتا ہے۔‘

فاطمہ کے مطابق انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ اور شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے کے تحت، ہر فرد کو رازداری، وقار اور من مانی مداخلت کے خلاف تحفظ کا حق حاصل ہے۔  ’ڈی این اے انتہائی حساس ذاتی معلومات پر مشتمل ہے اور اسے انتہائی احتیاط کے ساتھ سنبھالا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ’کسی بھی ڈی این اے ڈیٹا بیس کو واضح قانون سازی کی حمایت حاصل ہونی چاہیے جو اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ ڈی این اے کو منصفانہ طریقے سے جمع کیا جائے، محفوظ طریقے سے ذخیرہ کیا جائے، صرف مخصوص مجرمانہ انصاف کے مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے، اور بغیر کسی جواز کے غیر معینہ مدت تک برقرار نہ رکھا جائے۔‘

فاطمہ کا کہنا تھا کہ ’ڈی این اے ڈیٹا بیس انصاف کو بڑھا سکتے ہیں، لیکن سخت قانونی تحفظات کے بغیر، وہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کے تحت محفوظ رازداری کے حق کی خلاف ورزی کا خطرہ رکھتے ہیں۔‘

محکمہ داخلہ کے ترجمان توصیف صبیح گوندل کا کہنا تھا کہ فرانزک سائنس اتھارٹی ڈی این اے کو ہمیشہ اپنے ریکارڈ میں رکھے گی ’ دس سال میں 60 ہزار ڈی این اے جمع کیے ہیں اور آج تک کسی کے ڈی این اے لیک ہونے کا کوئی واقعہ سامنے نہیں آیا کیونکہ اس طرح کے ریکارڈ کی حفاظت کرنے کے اپنے طریقہ کار ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ورکنگ گروپ کی پیر کو پہلی میٹنگ ہوئی ہے اور انہوں نے اپنی سفارشات و تجاویز سات دن میں دینی ہیں اور اس میں شامل ماہرین جانتے ہیں کہ انہوں نے کس طرح سے ایک میکنزم تیار کرنا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان