ایوان بالا یعنی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے جمعرات کو صیہونیت (Zionism) کی تبلیغ سے معاشرے میں نفرت پیدا کرنے پر تین سال قید اور صیہونی علامت کے نشان کی نمائش سے بدامنی پیدا کر نے پر دو سال قید کی سزا کا بل منظور کر لیا ہے۔
جمعرات کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ میں متعدد بل زیر غور آئے، جن میں سے ایک حکومتی جماعت مسلم لیگ ن کے سینیٹر افنان اللہ خان کی جانب سے پیش کیا گیا کرمنل لا ترمیمی بل بھی تھا۔
سینیٹر فیصل سلیم رحمٰن کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس کے دوران سینیٹر افنان اللہ نے صیہونیت کی تبلیغ سے متعلق بل پیش کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں اس وقت صیہونیت کی ذہنیت اور نظریات ہیں۔
ان کا کہنا تھا: ’صیہونیت کی کتابوں میں لکھا ہے کہ جو آپ سے اتفاق نہ کرے انہیں قتل کر دو۔ یہ اس نظریے کے تحت غزہ میں بچوں کو شہید کر رہے ہیں۔‘
سینیٹر افنان نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’صیہونیت کی تبلیغ اور ان کے نشان پر پاکستان میں پابندی لگائیں گے۔ پاکستان میں بھی صیہونیت کے نظریات کے حامل افراد موجود ہیں۔‘
اجلاس کے دوران کسی کمیٹی رکن یا وزارت داخلہ کی جانب سے بل کی مخالفت نہیں کی گئی اور بعدازاں اسے منظور کر لیا گیا۔
انڈپینڈنٹ اردو کو دستیاب بل کے مسودے میں کہا گیا کہ ’جو دانستہ طور پر صیہونیت کی تبلیغ کر کے معاشرے میں نفرت پیدا کرے، اسے تین سال قید اور 40 ہزار روپے جرمانہ ہو گا جبکہ جو دانستہ طور پر صیہونی علامات کی نمائش کرے، جس سے نفرت اور بدامنی پیدا ہو اسے دو سال قید اور 30 ہزار روپے جرمانہ ہوگا۔‘
بل کے مطابق صیہونیت کی تبلیغ اور نشان کی نمائش پر وارنٹ کے بغیر گرفتاری نہیں ہوگی اور یہ قابل ضمانت ہوگا۔
بل کے اغراض و مقاصد میں کہا گیا کہ صیہونیت کا آغاز 1890 میں ناتھن برنبام نے ایک نسلی اور مذہبی تحریک کے طور پر کیا، جو بعدازاں سیاسی تحریک میں تبدیل ہو گئی۔’صیہونیت کا مقصد یہودیوں کو اکٹھا کرنے کے بعد انہیں اسرائیل میں ایک ملک دینا تھا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اغراض و مقاصد میں مزید کہا گیا کہ ’صیہونیت ایک نسلی، مذہبی و سیاسی نظریہ ہے، جس کے مقاصد کے حصول کے لیے انتہا پسند طریقہ کار اور وسائل اختیار کیے جاتے ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ مذہبی ہم آہنگی، مختلف مذاہب اور عقائد کے لیے رواداری کا مظاہرہ کیا ہے۔ ایک مسلم ریاست ہونے کے ناطے پاکستان میں صیہونیت کی تبلیغ یا اس کے نشان کی نمائش برداشت نہیں کی جا سکتی۔‘
اس سے قبل اجلاس کے دوران ریپ کیسز میں سزا بڑھانے کا ترمیمی بل بھی پیش کیا گیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ ریپ کیسز میں سزا بہت کم ہے، اس کے لیے سخت سے سخت سزا دینا ہوگی۔
سینیٹر محسن عزیز کے مطابق: ’ایسے کیسز میں مجرم جب تک زندہ ہے اسے جیل میں رہنا چاہیے۔‘
بلوچستان عوامی پارٹی سے منسلک سینیٹر ثمینہ زہری نے کہا: ’ہم 50 سال پرانے قوانین پر چل رہے ہیں، اب ہمیں ایسے قوانین میں تبدیلی کرنی چاہیے۔ ایسے کیسز میں کم از کم 25 سال سزا ہونی چاہیے۔‘
بعد ازاں کمیٹی نے ریپ کیسز کے حوالے سے قانون میں ترمیم کے لیے ذیلی کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا، جس میں وزارت داخلہ، وزارت قانون اور انسانی حقوق کے نمائندے شامل ہوں گے۔
چیئرمین کمیٹی نے ذیلی کمیٹی کو 10 روز میں اپنی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔