آج کی تیز رفتار دنیا میں روزانہ کوئی نئی ٹیکنالوجی وجود میں آرہی ہے۔ ان ٹیکنالوجیز کے ساتھ جنم لینے والے مسائل بھی دنیا کے لیے چیلنج بنتے جا رہے ہیں۔ ہم اس وقت انفارمیشن اوورلوڈ کے طوفان سے گزر رہے ہیں جہاں صرف سوشل میڈیا پر ہی ہر سیکنڈ میں لاکھوں نئی معلومات جنم لے رہی ہیں۔ اس میں کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ، اس کی پہچان کرنا مشکل ہے۔
فیک نیوز اور ڈس انفارمیشن نے انتہائی مہلک شکل اختیار کر لی ہے۔ یہ عام شہریوں کے ساتھ اب سپرپاورز کے لیے بھی خطرہ بن چکی ہے۔ نئی ایجادات کے ساتھ اس خطرے کا ادراک اور اس کا توڑ تلاش کرنا بے حد ضروری ہے۔
ڈس انفارمیشن ہوتی کیا ہے؟
تصور کریں کہ آپ اپنی مصروفیات سے فارغ ہو کر گھر جا رہے ہیں۔ گھر کے قریب سامنے سے آتا ہوا ایک اجنبی آپ سے واپس مڑنے کا کہے کہ آگے راستہ بند ہے، آپ کو جو دوسرا راستے اختیار کرنا ہے وہ انتہائی بری حالت میں ہے مگر آپ کو جلدی گھر بھی پہنچنا ہے، لہٰذا آپ نے فوراً فیصلہ کرنا ہے کہ یا تو اجنبی کی بات مان لی جائے یا پھر آگے جا کر خود اطمینان کرنے کے بعد ہی کوئی فیصلہ لیا جائے۔
فرض کریں کہ آپ اس پر یقین کر کے واپس پلٹ گئے، راستہ بند کرنے والوں کو کوستے ہوئے گھر پہنچ گئے۔ راستے میں اس طرف جاتے لوگوں کو بھی نیک نیتی سے واپس پلٹنے کا کہتے رہے۔ گھر پہنچ کر آپ کو معلوم ہو کہ اجنبی نے آپ کو گمراہ کیا ہے اور اب سوائے افسوس کے کوئی اور راستہ نہیں۔ یعنی ایک جھوٹی خبر پر یقین کرنے سے آپ کا وقت اور توانائی ضائع ہوئی اور دوسرے لوگ بھی اس کا شکار ہوئے۔ آپ تحقیق کر لیتے تو آپ کے ساتھ ساتھ دیگر لوگ بھی متاثر نہ ہوتے۔
اس اجنبی کے اس عمل کا مقصد آپ کو گمراہ کرنا یا کوئی غلط فائدہ اٹھانا تھا تو یہ خبر ڈس انفارمیشن کے زمرے میں آتی ہے۔ لیکن اس کے برعکس اس نے کسی کو واپس آتا دیکھ کر خود سے یہ گمان کر لیا اور مقصد بھی آپ کو نقصان یا تکلیف پہنچانا نہیں تھا، تو یہ مِس انفارمیشن تھی۔ یعنی ہر وہ فیک نیوز یا جھوٹا مواد جو ذاتی مفاد یا لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے جان بوجھ کر پھیلایا جاتا ہے، ڈس انفارمیشن کہلاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر یہ عموماً سنسنی خیز مواد کی صورت میں نظر آتی ہے۔ جعلی تصویریں، گمراہ کن سرخیاں یا تخلیق کردہ کہانیاں، یہ سب ڈس انفامیشن کے مختلف طریقے ہیں جو جذباتی ردعمل کو بھڑکانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر ڈس انفارمیشن کیوں پھیلائی جاتی ہے؟
یہ ہائپر انفارمیشن کا دور ہے۔ معلومات کی ترسیل کی رفتار روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ تیز ہو چکی ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی بدولت خبریں اور معلومات انتہائی تیزی سے دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پھیل جاتی ہیں۔
کئی ممالک میں اسی سوشل میڈیا کو اقتدار کے خاتمے اور مسائل کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے بھی استعمال کیا گیا۔ اس کے دائرہ اثر کو دیکھتے ہوئے ہی دنیا کے کئی طاقتور ترین ممالک سمیت دیگر ملکوں میں سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے قوانین بنائے گئے اور بنائے جا رہے ہیں۔ لیکن جہاں اس کے صارفین اور اثرات میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے، وہیں اس کے ذریعے پھیلنے والی غلط اور من گھڑت معلومات یعنی ڈس انفارمیشن بھی ایک عالمی مسئلے کی شکل اختیار کر چکی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان میں سیاسی اور سماجی تقسیم میں شدت کے باعث ڈس انفارمیشن نہایت خطرناک صورت اختیار کر چکی ہے۔ سیاسی جماعتیں، افراد اور تنظیمیں بھی بعض اوقات سوشل میڈیا پر فیک نیوز یا ڈس انفارمیشن پھیلاتی، یا اس کا شکار نظر آتی ہیں۔ انتخابات، احتجاج یا کوئی واقعہ رونما ہو جائے تو اس دوران ریٹنگ اور ویوز لینے کی تگ و دو میں اتنی ڈس انفارمیشن ہوتی ہے کہ بعض اوقات ذرائع ابلاغ کے ادارے بھی کے لیے بھی سچ اور جھوٹ میں فرق کرنا آسان نہیں ہوتا۔
سنسنی خیزی اور لائیکس حاصل کرنے کے لیے فیک نیوز اور حقیقت میں فرق نہیں کر پاتے۔ وہ چیز چاہے جھوٹی ہی کیوں نہ ہو، اگر وہ ہمیں اچھی لگ رہی ہے تو ہم بھی بغیر تحقیق کیے اسے شیئر کر دیتے ہیں، اور وہ وائرل ہو جاتی ہے۔
سوشل میڈیا پر وہی مواد زیادہ چلتا ہے جو اس وقت کے ٹرینڈز کے مطابق ہو۔ آپ عمران خان کے جتنے بھی مخالف ہوں، اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ پاکستان میں عمران خان سے متعلق خبر ہمیشہ ٹرینڈز میں رہتی ہے۔ آپ پی ٹی آئی مخالف چینلز یا ویب سائٹس کا جائزہ لیں تو ان کی ہر خبر اور ہر ویڈیو میں عمران خان کی نمایاں تصویر لازمی نظر آتی ہے۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ پوری خبر یا ویڈیو میں عمران خان سے متعلق شاید ایک ہی جملہ ہو، مگر لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے باقی مواد کے بجائے اسے ہی ہیڈلائن یا انٹرو میں خصوصی جگہ دی جاتی ہے۔
ہم کس طرح ڈس انفارمیشن کا ہدف بنتے ہیں؟
سوشل میڈیا کے الگوردم ہماری پسند اور ناپسند سمیت تمام ذاتی معلومات کی بنیاد پر فیصلہ کرتے ہیں کہ کون سی خبر یں یا مواد آپ کو مرعوب کر سکتے ہیں، پھر آپ کو وہی سب کچھ دکھایا جاتا ہے۔ ایسی کئی ویب سائٹس موجود ہیں جو صرف یہ بتاتی ہیں کہ اس وقت کیا ٹرینڈز چل رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر کانٹینٹ بنانے والے چینلز اور افراد اسی کے مطابق حقیقت پر مبنی یا فیک نیوز کے ذریعے ٹرینڈ میں رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔
فیک نیوز پھیلانے والی ویب سائٹس اور ویڈیوز پر تھم نیلز کی صورت میں کلک بیٹس کی بھرمار نظر آتی ہے۔ پیسہ کمانے کے لیے حقیقت کے بجائے سنسنی خیزی پھیلا کر کلک لینے کےنئے طریقے اپنائے جاتے ہیں۔ عجیب و غریب قصوں کوسچ بتا کر شیئر کیا جاتا ہے۔ کہیں اور کی ویڈیو کسی اور واقعے سے جوڑ دی جاتی ہے۔ یہ سب کچھ باقاعدہ ٹارگٹ کر کے کیا جاتا ہے۔ اور اگر اس خبر یا مواد کا ہدف ہم ہوں تو ہم آنکھیں بند کر کے اس پر یقین کرتے ہیں اور آگے شیئر کر دیتے ہیں، یوں ہم بھی ڈس انفارمیشن پھیلانےوالے کے مقصد کو پورا کرنے میں سہولت کاربن جاتے ہیں۔
ڈس انفارمیشن کا مقابلہ کیسے کیا جا سکتا ہے؟
معلومات کے اس طوفان میں انتشار پھیلانا یا کسی کی عزت اچھالنا اب نہایت آسان کام ہے۔ خوفناک بات یہ ہے کہ ڈس انفارمیشن پھیلانا جتنا آسان ہے، اس کی تصدیق، تردید یا اس پر قابو پانا اتنا ہی مشکل کام ہے۔ جنریٹیو آئی اور ڈیپ فیک جیسی ٹیکنالوجیز کے بعد تو جعلی ویڈیوز اور تصاویر بننا عام سی بات ہو گئی ہے۔ ان میں کچھ تو اتنی مہارت سے تخلیق کی گئی ہوتی ہیں کہ بعض اوقات ماہرافراد بھی اسے اے آئی جنریٹڈ ثابت کرنے میں تذبذب کا شکار ہو جاتے ہیں۔
دنیا کے بڑے ادارے اور ترقی یافتہ ممالک میں بھی ایسے ہی کسی مواد کے باعث رونما ہونے والے کسی بڑے واقعے کے پیچھے موجود محرکات کی کھوج لگانے کے لیے باقاعدہ پروفیشنل ایجنسیز کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ یعنی ایک عام شخص کے لیے ہرطرح کی ڈس انفارمیشن کی تحقیق کرنا آسان کام نہیں ہے۔
غلط معلومات کے پھیلاؤ میں عام طور پر فیک اکاؤنٹس یا ہینڈلز کا استعمال کیا جاتا ہے، جن کی پروفائل عموماًجعلی ناموں یا کسی مشہور پلیٹ فارم سے ملتی جلتی طرز پر بنائی گئی ہوتی ہیں۔
صارفین کی ایک بڑی تعداد جانچ کیے بغیر ان معلومات پر یقین اور شیئر کر لیتی ہے۔ اگر ہم جذبات میں آکر شیئر کرنے کے بجائے ان ہینڈلز پر تھوڑا غور کریں تو اس کی جانچ کی جا سکتی ہے۔
ایسے اکاؤنٹس کی تمام یا زیادہ تر پوسٹس سنسنی خیز، متنازع یا جھوٹی معلومات پر مبنی ہوتی ہیں۔ ان پر بعض اوقات عوام کی ذہن سازی کے لیے صحیح خبر کے ساتھ گمراہ گن ذاتی تجزیے یا عبارت شیئر کر دی جاتی ہے، جس کا اس خبر سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس کا مقصد ایک خاص طبقے کو اشتعال دلانے یا تنازعے کی طرف مائل کرنے کی کوشش ہو سکتی ہے۔
پاکستان میں کئی ادارے صحافیوں اور میڈیا ہاؤسز کو ایسے حالات میں حقیقت کی کھوج لگانے کے لیے فیکٹ چیکنگ کی تربیت دیتے ہیں۔ لیکن اگر عام سوشل میڈیا صارف ذاتی زندگی کی طرح سوشل میڈیا کے استعمال کے لیے بھی چند اصول اپنالےتو ڈس انفارمیشن کا شکار ہونے سے محفوظ رہ سکتا ہے۔
سب سے پہلے تو یہ ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ ہماری ذاتی زندگی ہو یا سوشل میڈیا، تحقیق کے بغیر کسی بات پر یقین اور پھر اس کی ترسیل میں اپنا حصہ ملانا اخلاقی بددیانتی ہے۔ بطور سوشل میڈیا صارف، کسی بھی معلومات خاص طور پر ہنگامی یا سنسنی خیز خبر کی تصدیق لازمی کرنی چاہیے اور خبر وں کے لیے بھی کسی ایک ذریعے پر ہی انحصار نہیں کرنا چاہیے۔
ایسا کرنے سے متوازن نقطۂ نظر قائم ہونے کے ساتھ غلط معلومات کا شکار ہونے کا خطرہ بھی کم کیا جا سکتا ہے۔ ڈس انفارمیشن کا پھیلاؤ اخلاقی طور پر بھی درست نہیں، دوسری طرف ہمارے لیے مسائل بھی پیدا کرسکتا ہے۔
ہم اپنی سوشل میڈیا ٹائم لائن کو کیسے محفوظ بنا سکتے ہیں؟
سوشل میڈیا پر غیر مستند ذرائع سے شیئر کی گئی کوئی بھی ایسی معلومات ہوں جو کسی کے لیے نقصان، تحقیر یا پریشان کا باعث بن سکتی ہوں، اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کرنا آپ کے لیے مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ خاص طور پر وہ سنسنی خیز خبر یا معلومات ہوں تو صورت حال مکمل طور پر واضح نہ ہو جانے تک اس پر فوری ردعمل بھی نہیں دینا چاہیے۔
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی غلط معلومات کے پھیلاؤ سے نمٹنے کے لیے قانونی فریم ورک اور ریگولیٹری ادارے موجود ہیں۔ آپ کی جانب سے غیرارادی طور پر شیئر کی گئی غلط یا حساس معلومات آپ کے لیے مسائل کا باعث بھی بن سکتی ہے۔
فیک نیوز سے بچنے کے لیے آپ نیچے دی گئی دس احتیاطی تدابیر اختیار کر سکتے ہیں:
- معلومات کے ذرائع کو جانچیں: کسی بھی خبر کو شیئر کرنے یا اس پر یقین کرنے سے پہلے یہ دیکھیں کہ وہ آئی کہاں سے ہے۔ معتبر ذرائع اور مستند اداروں کی خبروں پر زیادہ اعتماد کیا جا سکتا ہے۔
- خبر کے مصدقہ ہونے کی تحقیق کریں: اگر کوئی خبر مشکوک لگے تو انٹرنیٹ پر سرچ کر لیں اور دیکھیں کہ کیا دوسرے معتبر ذرائع بھی وہی خبر دے رہے ہیں۔
- تاریخ اور سیاق و سباق کو دیکھیں: بعض اوقات پرانی خبریں دوبارہ شیئر کر دی جاتی ہیں یا سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کی جاتی ہیں۔ خبر کی تاریخ اور اس کی اصل کہانی کو جانچنا ضروری ہے۔
- عجیب و غریب دعووں پر شک کریں: اگر کوئی خبر یا دعویٰ غیر معمولی، ناقابل یقین یا حد سے زیادہ جذباتی لگے تو اس پر یقین کرنے سے پہلے تحقیق کریں۔ لازمی نہیں کہ ہر عجیب خبر فیک ہی ہو، مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جو خبر جتنی عجیب اور حقیقت سے ہٹی ہو گی، اس کے فیک ہونے کے اتنے ہی زیادہ امکانات ہوں گے۔
- فیکٹ چیکنگ پلیٹ فارمز استعمال کریں: ایسی ویب سائٹس جیسے Snopes، FactCheck.org، یا PolitiFact وغیرہ مختلف خبروں کی سچائی کا جائزہ لیتی ہیں۔ ان کی مدد سے آپ کسی خبر کی صداقت کا جائزہ لے سکتے ہیں۔
- جذباتی یا سنسنی خیز سرخیوں پر توجہ دیں: اکثر فیک نیوز سنسنی پھیلانے کے لیے انتہائی جذباتی اور سنسنی خیز سرخیاں استعمال کرتی ہیں۔ ایسی خبروں سے محتاط رہیں اور اصل مواد کو بھی جانچیں۔
- نیوز فیڈ پر معلومات کا تنوع رکھیں: صرف ایک ہی ماخذ سے خبریں لینے سے پرہیز کریں اور فیک نیوز سے بچنے کے لیے یہ چیک کر لیں کہ یہ خبر دوسرے کن ذرائع سے آئی ہے۔ جتنے زیادہ ذرائع سے خبر آپ تک پہنچی ہے، اس کے اصل ہونے کے اتنے ہی امکانات ہوں گے۔ اس لیے مختلف ذرائع سے خبریں دیکھنے کی عادت ڈالیں تاکہ آپ کو زیادہ متوازن اور متنوع معلومات مل سکیں۔
- تصاویر اور ویڈیوز کے فیک ہونے کے امکان پر توجہ دیں: ڈیجیٹل ٹیکنالوجی میں ترقی کی وجہ سے جعلی تصویریں بلکہ ویڈیوز بنانا بھی بہت آسان ہو گیا ہے۔ بعض اوقات تصاویر یا ویڈیوز کو سیاق و سباق سے ہٹ کر یا تبدیلی کر کے بھی پیش کیا جاتا ہے۔ آپ تصاویر کو گوگل ریورس امیج سرچ کے ذریعے اور ویڈیوز کو فیکٹ چیکنگ ٹولز سے جانچ سکتے ہیں۔
- مستند صحافتی اداروں پر اعتماد کریں: ضروری نہیں کہ ہر بڑے صحافتی ادارے کی ہر خبر سچی ہو، لیکن عام طور پر یہ ادارے اپنی ساکھ بچانے اور قانون کے شکنجے سے بچنے کے لیے کوشش کرتے ہیں کہ صرف حقیقی اور مستند خبر ہی دیں۔ اس لیے قومی اور بین الاقوامی سطح پر مشہور اداروں کی خبریں عام طور پر درست اور قابلِ اعتماد ہوتی ہیں، تاہم ان پر بھی اندھا دھند اعتماد مناسب نہیں، اور اگر آپ کو شک ہے تو یہ خبر دوسرے ذرائع سے بھی چیک کر لیں۔
- شیئر کرتے ہوئے بہت احتیاط سے کام لیں: اگر کوئی خبر مصدقہ نہیں ہے تو اسے شیئر کرنے سے پرہیز کریں، کیونکہ آپ کی طرف سے غیر مصدقہ خبروں کا پھیلانا دوسروں کو بھی گمراہ کر سکتا ہے، بلکہ انہیں کسی بڑے نقصان پہنچانے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ نے اگر ایک فیک نیوز شیئر کر لی کہ دارچینی کھانے سے ذیابیطس کا علاج ہو سکتا ہے تو ہو سکتا ہے کہ آپ کی خبر سے کوئی مریض دارچینی کھاتا رہے اور اس کا مرض بگڑ جائے۔
ان اقدامات کو اپنا کر آپ فیک نیوز سے بچ سکتے ہیں، دوسروں کو بچا سکتے ہیں اور زیادہ معتبر اور مستند معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔