فیک نیوز پر ناقابل ضمانت پانچ برس تک سزا ہو سکتی ہے: فروغ نسیم

وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کے مطابق پیکا ایکٹ میں ترامیم کے تحت سزاؤں کا اطلاق پبلک آفس ہولڈرز یا اداروں کے خلاف پروپیگنڈے یا منفی مہم پر ہو گا۔

پاکستان کے وزیر قانون فروغ نسیم 19 دسمبر 2019 کو پریس کانفرنس کے دوران بات کر رہے ہیں (فائل تصویر: اے ایف پی)

وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے اتوار کو پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم 2016 (پیکا) ایکٹ میں پیش کی گئی ترامیم کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ان ترامیم کے تحت سزاؤں کا اطلاق پبلک آفس ہولڈرز یا اداروں کے خلاف پروپیگنڈے یا منفی مہم پر ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ ترامیم کے تحت قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر ناقابل ضمانت تین سے پانچ سال سزا ہو گی۔

فروغ نسیم نے اتوار کو کراچی میں میڈیا بریفنگ کے دوران مزید کہا کہ میڈیا تنقید کرنا چاہتا ہے تو بالکل کرے لیکن کچھ لوگ ملک میں ہیجانی کیفیت پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ’معاشرے کی بنیاد جھوٹ پر ہو تو کیا معاشرہ بنے گا۔ جدید دور میں میڈیا کی بہت اہمیت ہے۔ میڈیا ریاست کا چوتھا ستون ہے۔‘

انہوں نے واضح کیا کہ یہ آرڈیننس میڈیا پر قدغن سے متعلق نہیں البتہ فیک نیوز کو روکنا بہت ضروری ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ایکٹ میں ترامیم کے بعد دو کی جگہ پانچ سال سزا ہوگی اور یہ ناقابل ضمانت جرم ہو گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسے کیسز کا چھ مہینے میں ٹرائل ہو گا، اگر اس مدت میں ٹرائل مکمل نہیں ہوتا تو ہائی کورٹ متعلقہ جج سے پوچھے گا۔ ’اگر جج ہائی کورٹ کو مطمئن نہ کرسکا تو اس کے خلاف بھی ایکشن ہو گا۔‘

انہوں نے کہا کہ ترامیم آئین سے متصادم نہیں۔ وزیر قانون کے مطابق چیف جسٹس گلزار کے خلاف خراب زبان استعمال کی گئی، خاتون اول سے متعلق طلاق کی خبریں چلائی گئیں۔

وزیر قانون کی میڈیا کانفرنس سے قبل اتوار کو ’ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے ان ترامیم کو جمہوری اقدار کے منافی قرار دیا ہے۔

کمیشن نے اپنے آفیشل ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا کہ ’ریاست پر آن لائن تنقید پر قید کی سزا کو دو سے بڑھا کر پانچ برس کرنے اور اسے ناقابل ضمانت جرم قرار دینے کا قانون جمہوریت کے منافی ہے۔‘

(یہ قانون) حکومت اور ریاست سے اختلاف اور ان پر تنقید کرنے والی آوازوں کو خاموش کرانے کے لیے استعمال ہو گا۔‘

انسانی حقوق کمیشن کے اس قانون سے متعلق تحفظات پر سوال کے جواب میں وفاقی وزیر نے کہا کہ ’ایچ آر سی پی نے اگر درست طرح اس قانون کو پڑھا ہے تو مجھے یقین ہے کہ وہ اپنی رائے پر نظرثانی کریں گے۔ ایچ آر سی پی یہ نہیں کہہ سکتا کہ آپ فیک نیوز چلائیں اور اس پر سزا نہ ہو۔‘

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وفاقی حکومت نے اداروں پر تنقید کو قابل دست درازی جرم قرار دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

’حکومت نے پریوینشن آف الیکڑانک کرائم ایکٹ 2016 میں ترمیم کی منظوری بھی دے دی ہے۔ اس حوالے سے جلد ہی ترمیمی آرڈیننس جاری کر دیا جائے گا۔‘

واضح رہے کہ گذشتہ دور حکومت میں اگست 2016 میں قومی اسمبلی سے ایک بل پریوینشن آف الیکڑانک کرائم ایکٹ 2016 پاس ہوا تھا۔

یہ بل اس وقت کی انفارمیشن ٹیکنالوجی وزیر انوشہ رحمٰن نے پیش کیا تھا۔ اُس وقت بھی سوشل میڈیا اور مختلف حلقوں میں یہ بل پاس ہونے پر تخفظات کا اظہار کیا گیا تھا لیکن حکومت وقت نے اسے قانون کا حصہ بنا دیا تھا۔

پریوینشن آف الیکڑانک کرائم ایکٹ 2016 کیا ہے؟

اس قانون کی شقوں کے مطابق اس کا اطلاق ہر پاکستانی پر ہوتا ہے۔ اس ایکٹ کے سات باب ہیں جس میں ہر قانونی نکات کی وضاحت کی گئی ہے۔

پہلے باب میں مختصر تعارف بتایا گیا ہے۔ دوسرے باب میں جرم اور سزاؤں کے بارے میں تفصیل ہے۔

تیسرے باب میں تحقیقاتی ایجنسی کے قیام، فرائض حدود و قیود بتائے گئے ہیں۔ چوتھے باب میں کسی آن لائن جرم کی صورت میں بین القوامی تعاون پر بات کی گئی ہے۔

پانچویں باب میں پراسیکیوشن ، ٹرائل اور اپیلوں کی تفصیل بتائی گئی ہے۔ چھٹے باب میں حفاظتی اقدامات جبکہ آخری باب میں پیکا کا آئین سے تعلق بتایا گیا ہے۔

اس ایکٹ کے تحت اگر پاکستان کی حدود سے باہر پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا ہوتا ہے لیکن اس میں ملوث افراد کے تانے بانے پاکستان میں ملیں گے تو ان افراد کے خلاف اِس قانون کے تحت کارروائی کا اختیار ہو گا۔

ایکٹ کے مطابق اگر کوئی شخص براہ راست ملوث نہیں لیکن سوشل میڈیا پر چلنے والے کسی منظم کمپین کا حصہ ہے تو پھر اُس کے خلاف کارروائی کا اختیار ہو گا۔

ایکٹ کے باب نمبر دو میں شامل شقوں کے مطابق اگر کوئی بھی شخص بدنیتی سے بلا اجازت کسی بھی معلومات تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرے گا یا بلا اجازت مداخلت کرے گا تو اُسے تین ماہ قید یا 50 ہزار روپے جرمانہ ہو گا۔

مستند معلومات اور مستند دستاویز کے بغیر اگر کوئی شخص بدنیتی سے خبر پھیلائے گا تو اُسے چھ ماہ قید یا ایک لاکھ روپے جرمانہ کی سزا ہو سکتی ہے یا پھر دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔

اگر کوئی شخص حساس معلومات تک بلا اجازت رسائی حاصل کر کے بدنیتی سے اُس کا غلط استعمال کرے گا یا مداخلت کرے گا تو اُسے پانچ سال قید یا 50 لاکھ روپے جرمانے کی سزا ہو گی یا جرم کی نوعیت کے مطابق دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔

اگر کوئی شخص قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے کی نیت سے سوشل میڈیا پر تخریب کارانہ یا دہشت گردانہ بیانیے کی ترویج کرے گا یا کالعدم جماعتوں کے بیانیے کو فروغ دے گا تو اس جرم کے تحت سات سال قید یا ایک کروڑ روپے جرمانہ رکھا گیا ہے یا پھر جرم کی نوعیت کے مطابق دونوں سزائیں بھی قابل عمل ہو سکتی ہیں۔

اس کے علاوہ ہر طرح کا سائبر کرائم، نفرت انگیز تقاریر، دہشت گردی کی منصوبہ بندی، معلومات میں ہیرا پھیری یا دستاویز میں جعل سازی، بلا اجازت کسی کی ذاتی معلومات کی تشہیر، آن لائن فراڈ، غیر قانونی سم کارڈ کا اجرا، فیر قانونی طور پر کسی ڈیوائس کی فراہمی بھی ایکٹ کے مطابق جرائم میں شامل ہے۔

اس کے علاوہ الیکٹرونک کرائم ایکٹ میں کسی شخص کی کردار کُشی اور جھوٹی معلومات کی بنیاد پر ایجنڈے کے تحت کسی شخص کے خلاف منظم مہم بھی قابل دست اندازی جرم ہے، جس کی سزا تین سال قید یا 10 لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔

اس کے علاوہ چائلڈ پورنوگرافی، کسی کی قابل اعتراض تصاویر/وڈیوز کی سوشل میڈیا پر تشہیر، سائبر سٹاکنگ یعنی آن لائن کسی کی معلومات حاصل کرنے کی کوشش اور ذاتی ڈیٹا میں مداخلت بھی ان جرائم میں شامل ہے۔ واضح رہے کہ ایف آئی اے کو پیکا ایکٹ پر ابتدائی کارروائی کا اختیار دیا گیا۔

الیکٹرانک کرائم ایکٹ 2016 لانے کی وجوہات کیا تھیں؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ قانون لانے کی وجوہات اس کی دستاویز میں بتائی گئی ہیں جس میں کہا گیا کہ بڑھتے ہوئے سائبر جرائم پر پاکستان میں اس سے قبل کوئی واضح قانون نہیں تھا اس لیے یہ وقت کی ضرورت ہے کہ اس کی بیخ کنی کی جائے۔

اس میں مزید کہا گیا کہ آن لائن یا سوشل میڈیا پر ہونے والے جرائم کی کوئی واضح قانون سازی موجود نہیں تھی جس کے تحت کسی بھی شخص کے خلاف کارروائی کی جا سکتی کیونکہ جو قانون پہلے کے بنے ہیں وہ فزیکل جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔

دستاویزات کے مطابق جیسے جیسے دنیا انٹرنیٹ پر منتقل ہوئی ہے اور سوشل میڈیا کا استعمال عام ہوا ہے سوشل میڈیا پر بیانیے بنائے جاتے ہیں جس میں اداروں یا شخصیات کی منظم طریقے سے کردار کُشی کی جاتی ہے اس لیے ایسا قانون وقت کی ضرورت ہے تاکہ ان سائبر جرائم کو الیکٹرانک کرائم ایکٹ کی چھتری تلے لایا جائے اور ایسے جرائم کی صورت میں قانون کے تحت ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جا سکے۔

دستاویزا میں کہا گیا کہ اس قانون سازی سے تحقیقات کا دائرہ بھی وسیع ہو گا۔ الیکٹرانک کرائم کی چھان بین کے لیے جدید ٹیکنالوجی کی مدد ڈیجیٹل فرانزک طریقہ کار اختیار کیا جائے گا۔

الیکٹرانک کرائم ایکٹ کے تحت کتنی سزائیں ہوئیں؟

2016 میں پاس ہونے کے بعد الیکٹرانک کرائم ایکٹ کے تحت کتنی سزائیں ہوئیں؟ انڈپینڈنٹ اردو کو میسر معلومات کے مطابق پیکا ایکٹ  کے تحت پہلی سزا 2017 میں لاہور کی ضلعی عدالت میں ایک شخص کو خاتون کو ہراساں کرنے پر ہوئی۔

ملزم نے خاتون کی ویڈیوز کو سوشل میڈیا پر ڈالنے کی بزریعہ واٹس ایپ پر دھمکی دی اور جعلی ای میلز بھی کیں۔

اسی طرح 2019 میں پشاور کی مقامی عدالت نے ایک لڑکی کا سوشل میڈیا پر جعلی اکاؤنٹ بنانے اور ہراساں کرنے پر پیکا ایکٹ کے تحت آٹھ سال قید اور 50 ہزار جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

فریڈم نیٹ ورک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2019 سے 2021 کے درمیان 20 سے زائد صحافیوں پر سوشل میڈیا پر شخصیات یا اداروں پر تنقید کے باعث پیکا ایکٹ کے تحت مقدمات درج کیے گئے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان