ٹانگ ضائع ہونے کے باوجود بم ناکارہ بنانے والے اہلکار کی کہانی

عنایت اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ گذشتہ 24 سالوں میں ساڑھے چھ سے سات ہزار کلوگرام بارودی مواد ناکارہ بنا چکے ہیں اور اس کام کے دوران ان کی ٹانگ بھی دھماکے میں کٹ گئی تھی۔

ڈیرہ اسماعیل خان کے بم ڈسپوزل سکواڈ کے سربراہ عنایت اللہ کا کہنا ہے کہ وہ گذشتہ 24 برس میں ساڑھے چھ سے سات ہزار کلوگرام بارودی مواد ناکارہ بنا چکے ہیں اور اس کام کے دوران ان کی ٹانگ بھی دھماکے میں کٹ گئی تھی۔

پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے عنایت اللہ 1998 میں خیبر پختونخوا پولیس میں بطور کانسٹیبل بھرتی ہوئے اور دو سال بعد 2000 میں بم ڈسپوزل سکواڈ میں کام کرنا شروع کر دیا۔

انہوں نے مختلف کورس کیے اس دوران خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کا سلسلہ تیز ہوا تو عنایت اللہ نے بھی عسکریت پسندوں کے حملوں کو ناکام بنانے کے لیے کوششیں تیز کر دیں۔

عنایت اللہ عرف ٹائیگر اس وقت بم ڈسپوزل یونٹ ڈیرہ اسماعیل خان کے سربراہ کے طور پر کام کر رہے ہیں اور 24 گھنٹے ڈیوٹی کے لیے تیار رہتے ہیں۔

عنایت اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ گذشتہ 24 سالوں میں ساڑھے چھ سے سات ہزار کلوگرام بارودی مواد ناکارہ بنا چکے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’مجھے اور میری ٹیم کو موت سے ڈر نہیں لگتا ہم ہر وقت شہادت کے لیے تیار ہیں۔‘

بقول عنایت اللہ: ’میری زندگی ہی بم اور بارودی مواد ناکارہ کرتے ہوئے گزر گئی، بارودی مواد ناکارہ کرتے وقت میرا اور میرے ساتھیوں کی تمام توجہ اپنے کام پر ہوتی ہے، ہمیں اپنا گھر، والدین اور بیوی بچے اس وقت سب بھول جاتے ہیں۔

’ہمارا ٹارگٹ یہی ہوتا ہے کہ جلد سے جلد اس بارودی مواد، خود کش جیکٹ یا بارود سے بھری گاڑی کو ناکارہ بنایا جائے تاکہ عوام اس سے محفوظ رہیں ہماری جانیں جاتی ہیں تو بےشک چلی جائیں، ہم ہر وقت اپنی جان ہتھیلی پہ رکھے ہوتے ہیں۔

’اس کام میں کئی بار بارودی مواد پھٹنے سے میری جان بچی میں کئی بار زخمی ہوا ایک بار میری ٹانگ دھماکے میں اڑ کر کٹ گئی، ہاتھ کی انگلیاں کلائی تک زخمی ہوئیں اور ایک بار بم پھٹنے سے میرا کندھا شدید متاثر ہوا۔‘

ٹائیگر کے نام سے مشہور عنایت اللہ کی نجی زندگی صرف اپنے ان ساتھیوں سے منسلک ہے جو ان کے ساتھ پولیس کے محکمے میں کام کرتے ہیں اور ان ہی کے ساتھ دفتر میں رہائش پذیر ہیں۔

’ٹائیگر‘ کی رہائش دفتر کے ایک کمرے میں ہے جہاں ان کی ضروریات کا سامان موجود ہے جبکہ ان مصنوعی ٹانگ اور یونیفارم نمایاں نظر آتے ہیں۔

ان کے کمرے کے ساتھ گودام ہے جس میں بم ڈسپوزل یونٹ کا سامان اور وہ مواد ہے جو انہوں نے ناکارہ بنایا ہے۔

ان کے دفتر کے سامنے ’شہدا کی یادگار‘ ہے جہاں چھوٹا سا ایک باغ ہے جس کی دیکھ بھال بھی عنایت اللہ خود کرتے ہیں۔

’ٹائیگر‘ اس باغ میں بیٹھ کر اپنے ان دوستوں کو یاد کرتے ہیں جو اب اس دنیا میں نہیں رہے اور دوران ڈیوٹی جان گنوا چکے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عنایت اللہ نے اپنی ٹانگ کے حوالے سے بتاتے ہوئے کہا کہ ’یوں سمجھ لیں میری بے احتیاطی کی وجہ سے یہ واقعہ رونما ہوا، 20 جنوری 2014 کو تھانہ کلاچی کی حدود لونڑی کے علاقے میں مائنز کی کال موصول ہوئی، جب میں وہاں پہنچا تو ان مائنز سے تین دھماکے پہلے ہوچکے تھے اور کئی چرواہے بھی زخمی ہوئے، اس کے علاوہ اور بھی مائنز کافی تعداد میں بچھی ہوئی تھیں۔

’مائنز فیلڈ میں ہوتا ہوں تو مجھ پہ دباؤ بہت زیادہ ہوتا ہے، مائنز کو ناکارہ کرنا جتنا آسان ہے، اتنا ہی خطرناک بھی ہے۔ میں اس وقت مائنز ناکارہ بنانے میں لگا ہوا تھا، 5 سے 6 کے قریب ناکارہ بنا چکا تھا، جبکہ آخری مائن رہ گئی تھی۔ میری عادت ہے کہ میں اپنا کیمرہ ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتا ہوں، جہاں بھی کام کر رہا ہوں، میں اس کی ویڈیو ریکارڈنگ ضرور کرتا ہوں، میرے کیمرے کی میموری ختم ہو رہی تھی، ڈرائیور نے آواز دی کے سر میموری کارڈ میں جگہ ختم ہونے والی ہے۔

’میں وہاں سے اُٹھا کیمرہ بند کیا، شام ہونے والی تھی، علاقہ بھی خطرناک تھا، ذرا جلدی تھی مجھے کہ کام ختم کرکے گھر جاؤں، جب واپس پلٹا تو اس علاقے سے ہٹ گیا جو کلیئر کر چکا تھا، جوں ہی کام دوبارہ شروع کیا تو ایک مائن جو کہ گہرائی کی وجہ سے میری نظر میں نہیں آئی، اس پر پاؤں آگیا اور ایک دم سے دھماکا ہوا، میں اپنی سوچ میں تھا کہ میرا علاقہ محفوظ ہے اور یہ آخری مائن ہے۔

’اتنے میں وہاں موجود سکیورٹی اہلکار نے آواز دی کہ عنایت ختم ہوگیا ہے، میں نے فوراً آواز دی کہ میں ٹھیک ہوں، مجھے اس وقت دھول مٹی کی وجہ سے کچھ معلوم نہیں تھا کہ میری ٹانگ میرے ساتھ ہے یا نہیں۔ تھوڑی دیر میں دیکھا تو ٹانگ کٹ کے دور پڑی ہوئی تھی، انگوٹھا اور ساتھ دو انگلیاں کٹی ہوئی تھیں۔‘

انہوں نے کہا کہ وہ کئی دھماکوں اور حملوں میں زخمی ہوئے اور اس دوران ان کی جان جا سکتی تھی۔

بقول عنایت اللہ انہیں گھر میں بچوں کے ساتھ بہت کم وقت گزارنے کو ملتا ہے، ’ڈیرہ اسماعیل خان میں گھر ہونے کے باوجود میں کئی کئی ماہ اپنے گھر نہیں جا پاتا کیوں کہ میرے لیے فرض سب سے اہم ہے۔‘

عنایت اللہ کو شجاعت اور بہادری پر سابق صدر پاکستان ممنون حسین کی طرف سے تمغہ جرات بھی ملا اور سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی طرف سے شاندار کارکردگی پر پانچ لاکھ روپے انعام بھی مل چکا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان