خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی پولیس کا کہنا ہے کہ تھانہ ڈیرہ ٹاؤن کی حدود میں واقع علاقہ کورائکے کے صدیق محمد قبرستان سے مبینہ طور پر دو مردے غائب ہوگئے ہیں۔
یہ واقعہ منگل کے روز سامنے آیا ہے، جس کی شکایت علاقہ مکینوں نے قریبی تھانے میں درج کی۔
اسی علاقے سے تعلق رکھنے والے مقامی صحافی عباس اعوان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ قبرستان میں قبریں کھودی گئی ہیں، جن سے دو مردے غائب ہیں جبکہ ایک کو کھودا گیا ہے لیکن مردے کا جسم موجود ہے۔
غائب ہونے والی لاشیں بچوں کی ہیں۔ علاقہ مکینوں کے مطابق بچے کی ہڈیاں بھی قریبی کھیتوں سے ملی ہیں۔
عباس اعوان نے بتایا: ’قبرستان سے دو مردے غائب تھے اور ان کے کفن قریبی کھیتوں میں پڑے ہوئے ملے ہیں، جس سے لواحقین شدید کرب میں ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ یہ علاقے کا بڑا قبرستان ہے جو تقریباً 68 کنال کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ علاقہ مکین اس واقعے کی وجہ سے پریشان بھی ہیں اور اس سلسلے میں بدھ کو ایک میٹنگ میں یہ فیصلہ بھی کر چکے ہیں کہ رات کو چار پانچ افراد قبرستان میں پہرہ دیں گے۔
دوسری جانب پولیس نے اس سلسلے میں تفتیش شروع کر دی ہے۔ تھانہ ڈیرہ ٹاؤن کے سربراہ محمد اصغر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس کیس کی تفتیش ہو رہی ہے لیکن انہیں شک ہے کہ یہ کام کسی جانور کا ہے جس نے قبر سے مردے نکال کر کھائے ہیں۔
اصغر نے بتایا: ’ہم وثوق سے ابھی نہیں کہہ سکتے کہ مردے کیسے اور کس نے غائب کیے لیکن قبروں کے قریب پاؤں کے کچھ نشانات موجود ہیں، جو انسانوں کے نہیں لگتے لیکن ہم مزید تفتیش کر رہے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ اس جانور کو مقامی زبان میں ’دورڈینگا‘ کہا جاتا ہے جو کتے سے ذرا بڑا ہوتا ہے۔ جب اصغر سے پوچھا گیا کہ کیا پولیس نے اس جانور کو کہیں دیکھا ہے تو انہوں نے بتایا کہ ابھی تک اس کو کسی نے دیکھا نہیں ہے۔
اصغر سے جب پوچھا گیا کہ غائب ہونے والی لاشیں کس کی ہیں؟ تو انہوں نے بتایا دونوں غائب لاشیں بچوں کی ہیں جن کا انتقال تقریباً ایک ماہ پہلے ہوا تھا۔
مقامی صحافی عباس اعوان نے بتایا کہ وہ اس قبرستان کا دورہ کر چکے ہیں اور وہاں پر دیکھا گیا ہے کہ قبروں سے نکلنے والے پتھر جو قبر کے اوپر تختوں پر رکھے جاتے ہیں، وہ قبر سے چھ سات گز کے فاصلے پر پڑے ہوئے ملے، جس سے یہ لگتا ہے کہ یہ کام کسی جانور کا نہیں ہے۔
عباس نے بتایا: ’ایک قبر کو کھودا گیا ہے لیکن لاش لے کر نہیں گئے تو اس سے بھی اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ یہ کام جانور کا نہیں لگتا، تاہم پولیس تفتیش میں حقیقت واضح ہو جائے گی۔‘
پولیس نے جس جانور کا ذکر کیا اس حوالے سے عباس نے بتایا کہ پرانے لوگ بات کرتے ہیں کہ اس قسم کا ایک جانور ہے جو قبروں سے لاشیں نکال کر کھاتا ہے لیکن ابھی تک اس کو کسی نے دیکھا نہیں ہے کہ یہ کس قسم کا جانور ہے اور اس کو انگریزی اور اردو زبان میں کیا بولا جاتا ہوتا ہے۔
اسی قسم کا ایک واقعہ 2011 میں پنجاب کے نواحی گاؤں دریا خان میں پیش آیا تھا جہاں پر پولیس نے دو نوجوان بھائیوں کو گرفتار کیا تھا، جنہوں نے دوران تفتیش انہوں نے اعتراف کیا تھا کہ وہ گذشتہ دس سالوں سے قبروں سے مردے نکال کر کھاتے ہیں۔
عدالت نے دونوں ملزمان کو قبروں کی بے حرمتی کرنے پر دو سال کی سزا سنائی تھی، وہ بعد میں رہا ہوگئے تھے۔ تاہم 2014 میں یہی دو بھائی دوبارہ اسی جرم میں پکڑے گئے تھے جو بچوں کی قبریں کھود کر لاشیں نکال کر کھاتے تھے۔
پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 297 کے مطابق قبر کی بے حرمتی یا قبر سے لاش غیر قانونی طریقے سے نکالنے کی سزا عمر قید ہے۔
اس حوالے سے 2011 تک کوئی قانون نہیں بنا تھا لیکن پنجاب کے دریا خان گاؤں میں مردوں کو کھانے والے ملزمان سامنے آنے کے بعد اس وقت کی حکومت نے پاکستان پینل کوڈ میں ترمیم کر کے اس جرم کے لیے عمر قید کی سزا مقرر کی تھی۔