خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان (ڈی آئی خان) میں مقامی عدالت نے اپنی استانی پر توہین مذہب کا الزام لگا کر انہیں قتل کرنے والی مدرسے کی دو طالبات کو سزائے موت اور تیسری کو عمر قید کی سزا سنا دی ہے۔
مقتول استانی صفورا بی بی کے قتل کا مقدمہ ڈی آئی خان کے تھانہ سٹی میں مارچ 2022 میں درج کیا گیا تھا۔
تھانہ سٹی کے اہلکار محمد طفیل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دو طالبات کو سزائے موت اور ایک کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
انہوں نے بتایا: ’عدالتی فیصلے کی تفصیلی کاپی پولیس سٹیشن ابھی نہیں پہنچی ہے لیکن اتنا میں تصدیق کر سکتا ہوں کہ اس مقدمے میں سزائیں سنائی گئی ہیں۔‘
واقعے کی تفصیلات
توہین مذہب کے الزام میں صفورا بی بی کے قتل کا واقعہ مارچ 2022 میں ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے انجم آباد کے مدرسے جامعہ اسلامیہ فلاح البنات کے باہر پیش آیا تھا، جس کے بعد مقامی افراد کی اطلاع پر پولیس نے تینوں خواتین کو گرفتار کرکے مقدمہ درج کیا تھا۔
ڈیرہ اسماعیل خان کے تھانہ کینٹ کے اہلکاروں نے انڈپینڈنٹ اردو کو واقعے کے بعد اس وقت بتایا تھا کہ 19 سالہ صفورا بی بی مدرسے میں معلمہ تھیں، جبکہ مقتولہ اور ان پر حملہ کرنے والی خواتین کا تعلق ایک ہی گھرانے سے تھا، وہ اکھٹے ایک ہی مدرسے میں پڑھتی تھیں اور ان کے آپس میں علمی اختلافات رہے ہیں۔
تھانہ محرر عمر نے بتایا تھا کہ حملہ آور خواتین نے مقتولہ کے گلے کو تیز دھار چھری سے کاٹ ڈالا، جس سے وہ موقعے پر ہی دم توڑ گئی تھیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا تھا کہ ’گرفتار خواتین میں سے ایک نے پولیس کو بتایا کہ ان کی ایک کم عمر بھتیجی کو خواب میں بتایا گیا تھا کہ اس خاتون کو قتل کر دو۔‘
صفورا بی بی کے قتل کا مقدمہ ان کے چچا زاہد کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا، جن کا کہنا تھا کہ ’واقعے کے دن صبح ساڑھے سات بجے وہ گھر میں موجود تھے جب مدرسے کی مہتمم نے ان کے گھر فون کرکے ان کی بھتیجی پر قاتلانہ حملے کی اطلاع دی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جب وہ وہاں پہنچے تو صفورا دم توڑ چکی تھیں۔
زاہد کے مطابق: ’میری بھتیجی مدرسے میں پڑھاتی تھی۔ صبح جب وہ رکشے میں وہاں پہنچی تو مدرسے کے باہر تقریباً پانچ خواتین یونیفارم پہنے گیٹ بند ہونے کی وجہ سے کھڑی تھیں۔ صفورا بھی رکشے سے اتر کر ان کے پاس کھڑی ہو گئیں، جن میں سے دو بہنوں اور ان کی بھتیجی نے صفورا پر تیز دھار آلات سے وار کیا۔‘
جامعہ اسلامیہ فلاح البنات میں درس و تدریس سے منسلک اور مالک شفیع اللہ نے استانی کے قتل کے بعد میڈیا کو بتایا تھا کہ حملہ آور ’خواتین میں سے ایک نے کچھ عرصہ قبل ان کے مدرسے پر یہ الزام بھی لگایا تھا کہ وہاں صحیح درس نہیں دیا جاتا اور اس میں پڑھنے والے گستاخ ہیں۔‘
تاہم ان کا کہنا تھا کہ بعد ازاں اس خاتون نے اپنی اس بات کی معافی بھی مانگی لی تھی۔
شفیع اللہ نے مزید بتایا تھا: ’صفورا بی بی گذشتہ دو سال سے ہمارے مدرسے میں پڑھاتی رہی ہیں۔ وہ ایک شریف اور نہایت اچھا اخلاق رکھنے والی لڑکی تھیں۔ انہوں نے کبھی پیغمبر اسلام کے خلاف کسی قسم کی گستاخانہ بات نہیں کی۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔