پاکستان میں کالعدم شدت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کی سکیورٹی اداروں کے علاوہ چینی شہریوں کے خلاف حملوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
اس تنظیم کے بارے میں بھی خیال ہے کہ یہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی طرح افغانستان میں بھی وجود رکھتی ہے۔
اطلاعات ہیں کہ چین نے یہ تشویش ناک معاملہ افغان حکومت کے ساتھ اٹھایا ہے۔ بیجنگ کے بارے میں واضح ہے کہ وہ کبھی بھی عوامی سطح پر سفارت کاری نہیں کرتا۔ اس کی سفارت کاری کو اگر خاموش سفارت کاری کہا جائے تو بےجا نہ ہو گا۔
اسلام آباد میں بھی میڈیا سے ان کا میل ملاپ کچھ زیادہ دکھائی نہیں دیتا لیکن رابطے جاری رہتے ہیں۔ البتہ دیکھنا یہ ہے کہ چین اور پاکستان کے دہرے دباؤ کا افغان حکومت کیسے مقابلہ کرتی ہے - پاکستان کھل کر تنقید کرتا ہے جبکہ چین پس پردہ۔
بی ایل اے پاکستان میں مسلسل چینی مفادات کو ہدف بنا رہی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) جیسے منصوبوں میں بلوچ قوم کی شرکت نہ ہونے کے برابر ہے اور مقامی وسائل کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ اگر انہیں بروقت روکا اور کنٹرول نہ کیا گیا تو یہ افغانستان کے تعلقات چین، ایران اور پاکستان تینوں سے خراب کرسکتے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ افغان طالبان نے اس حوالے سے ہمدردانہ غور کا وعدہ کیا ہے۔
بلوچ شدت پسندوں کی حمایت؟
افغانستان میں حکمران طالبان اور پاکستانی طالبان نظریات کے علاوہ تنظیمی اعتبار سے بھی کافی قریب ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں، لیکن بلوچ علیحدگی پسندوں کی حمایت کا آخر کیا جواز بنتا ہے؟
بی ایل اے مذہبی سے زیادہ نسلی سوچ رکھتی ہے۔ وہ اپنی کارروائیوں کا جواز ٹی ٹی پی کے مقابلے میں مذہب کی بنیاد پر تلاش نہیں کرتی۔
اس کی بظاہر ایک ہی وجہ دکھائی دیتی ہے اور وہ ہے کہ دونوں کے مشترکہ دشمن نے انہیں وقتی دوست بنا دیا ہے؟ ٹی ٹی پی اور بی ایل کے روابط 2012 میں بھی سامنے آئے تھے لیکن اب بظاہر تعاون بڑھا ہے۔
ٹی ٹی پی کے سربراہ نور ولی محسود کئی بار بلوچستان میں شدت پسندی کی حمایت کرچکے ہیں۔ ٹی ٹی پی بلوچوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے بلوچی زبان میں ویڈیوز بھی جاری کرچکی ہے۔
بلوچ علیحدگی پسندوں کو افغانستان سے نکالنا آسان نہیں۔ صوبہ بلوچستان کے ساتھ افغانستان کی طویل سرحد کے چار صوبے لگتے ہیں جن میں ہلمند، قندھار، نمروز اور زابل شامل ہیں۔
بلوچوں کی افغانستان میں آبادی کا اندازہ دو فیصد ہے، جن کی کل تعداد چھ لاکھ کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔
اس میں سے دو لاکھ براہوی اور چار لاکھ بلوچی بولتے ہیں۔ نمروز افغانستان کا بلوچ اکثریتی صوبہ ہے جبکہ دوسرے نمبر پر بڑی تعداد ہلمند اور پھر قندھار میں رہتی ہے۔ قندھار کے بلوچوں میں براہوی بولنے والوں کی اکثریت ہے۔
افغانستان کے بلوچوں کا تعلق انہی تین صوبوں سے ہے، جو طالبان تحریک کا گڑھ سمجھے جاتے ہیں۔
یہی تین صوبے بالخصوص ہلمند اور نمروز تھے، جہاں اتحادی افواج کبھی بھی مکمل کنٹرول نہیں رکھ پائی تھیں۔
پاکستان سے ناراض بلوچوں کی افغانستان میں قیام کی ایک لمبی کہانی ہے۔ دوسری جانب بلوچ شکایت کرتے ہیں کہ افغانستان میں بلوچ پناہ گزینوں کے سنگین مسئلے کو اب تک عالمی میڈیا اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں نے نظر انداز کیا ہے۔
ان کا اصرار ہے کہ گذشتہ دو دہائیوں سے بلوچ آزادی پسند مسلح گروپوں اور پاکستان فوج کی کارروائیوں کے باعث کثیر تعداد میں بلوچ نقل مکانی کر کے افغانستان میں پناہ گزینوں کی زندگی گزار رہے ہیں۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق محض 2006 کے فوجی آپریشن میں بلوچستان کے صرف ڈیرہ بگٹی اور کوہلو کے اضلاع سے 50 ہزار سے زائد افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔
افغانستان میں بلوچ پناہ گزینوں کو رجسٹر کرنے کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں، لیکن ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت کم از کم بلوچستان کے مختلف علاقوں سے فوجی آپریشن کے سبب سات ہزار سے زائد خاندان افغانستان کے مختلف صوبوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
70 کی دہائی میں تقریباً 80 ہزار بلوچ افغانستان چلے گئے تھے، لیکن طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد بلوچ پناہ گزین اپنے تحفظ کے پیش نظر ایک بار پھر خدشات کا شکار ہیں۔
بلوچ سیاسی جماعتیں اور پناہ گزین ان پر افغان سرزمین پر حملوں کا الزام پاکستانی خفیہ اداروں اور ان کے مبینہ پراکسی گروپوں پر لگاتے رہے ہیں۔
ریاستی بیانیہ
ریاستی بیانیہ شروع سے یہی رہا ہے کہ بلوچستان میں جاری شورش کی وجہ بین الاقوامی مداخلت ہے۔ بعض غیرملکی طاقتیں یہاں امن نہیں چاہتی ہیں۔
ریاست کا دوسرا بیانیہ یہ بھی رہا ہے کہ بلوچستان میں جاری شورش کے ذمہ دار صرف مٹھی بھر افراد یا چند سردار ہیں۔
تاہم حقیقت یہ ہے کہ اس وقت بلوچستان کے اکثر سردار سیاسی عمل میں شامل نہیں بلکہ خاموش ہیں۔ ایک سیاسی خلا موجود ہے۔
تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ سیاست یا پرامن جدوجہد پر ریاستی پابندیوں کی وجہ سے بلوچ نوجوانوں کے لیے اپنی آواز بلند کرنے کے باقی تمام راستے مسدود ہو چکے ہیں۔
انہیں محض جلسے جلوس اور پریس کانفرنس کرنے پر اٹھا لیا جاتا ہے۔
بلوچ قوم پرست حلقوں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں ابھرتی ہوئی سیاسی بے چینی کو پاکستان روز اول سے بزور طاقت ختم کرنے پر عمل پیرا ہے۔
اس کی تازہ مثال حالیہ دنوں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے منعقد بلوچ راجی مچی کے دوران پاکستانی فورسز کا تمام راستے بند کرنے اور لوگوں کو گوادر تک پہنچنے سے روکنے کی صورت میں دیکھا گیا۔
بلوچستان میں نیا فوجی آپریشن کتنا مختلف ہو گا؟
حکومت کی سکیورٹی معاملات کو دیکھنے والی سب سے اہم کمیٹی ایپکس کمیٹی نے بلوچستان میں ایک بڑے اور جامع آپریشن کا اعلان کیا ہے۔
ابھی اس آپریشن کی نوعیت کے بارے میں زیادہ معلومات دستیاب نہیں لیکن زمینی فورسز کے علاوہ الیکٹرانک وارفیئر ایڈوانس ٹیکنالوجی اور ڈرون استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے ایک حالیہ بیان میں ٹارگٹڈ یا ہدف بنا کر آپریشن شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ شدت پسندوں کی تریبت گاہیں نشانہ بنائی جائیں گی۔
خیال ہے کہ اس کارروائی کے دوران ضرورت پڑنے پر فضائیہ کی مدد بھی دستیاب ہو سکتی ہے۔
اس آپریشن کا ہدف وہ پہاڑی علاقے ہوں گے جہاں بلوچ عسکریت پسندوں کی پناہ گاہیں یا وہ علاقے ہوں گے جہاں ان کو قیام اور تربیتی کیمپوں کی سہولت دستیاب ہے۔
قوی امکان ہے اور زمینی حقائق بھی اسی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اس آپریشن کو پھیلانے کی بجائے انٹیلی جنس کی بنیاد پر کارروائیوں تک محدود رکھا جائے۔
اس فوجی کارروائی سے قبل چین اور پاکستان کی جنگی مشقیں بھی 20 نومبر2024 سے پبی، خیبر پختونخوا میں جاری ہیں جن میں انسداد دہشت گردی پر زیادہ توجہ دی جا رہی ہے۔
ہفتے بھر کی ان مشقوں میں ایڈوانس ٹیکٹکس، انٹیلی جنس اور ٹیکنالوجی پر انحصار کرتے ہوئے شدت پسندوں کی آپریشنل صلاحیتوں کو ہدف بنانے کی تیاری کی جائے گی۔
بلوچستان میں اس نئے آپریشن کی مد میں چین سے بھی مدد ملنے کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔
پاکستان پہلے ہی ان خبروں کی تردید کر چکا ہے کہ چین اپنے شہریوں کی خود حفاظت کا تقاضہ کر رہا ہے۔
اس سے ظاہر ہے کہ پاکستان کے اندر جو بھی کارروائی ہو گی، پاکستانی سکیورٹی فورسز کریں گی۔
پاکستان کے لیے شدت پسند کا چیلنج دن بدن سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ دو دہائیوں سے خیبرپختو نخوا اور کئی دہائیوں سے بلوچستان میں طاقت کے ذریعے شدت پسندی کے خاتمے کی کوششیں ناکافی ثابت ہوئی ہیں۔
کیا ایسے میں سرکاری حکمت عملی میں تبدیلی کا کوئی امکان روشن ہو سکتا ہے؟
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔