پنجاب کی جیلوں کے قیدیوں کو کام کی اجرت ملنی شروع: حکام

محکمہ داخلہ پنجاب کے ترجمان توصیف صبیح گوندل نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اسی سلسلے میں پنجاب کی جیلوں میں کچھ عرصہ سے قیدیوں کو مختلف ہنر سکھانے کی تربیت دی جا رہی تھی۔

صوبہ پنجاب میں جیل اصلاحات کے تحت جیل انڈسٹری میں کام کرنے والے قیدیوں کو پہلی بار ہنر کا معاوضہ ملنا شروع ہو گیا ہے۔

صوبے میں قیدیوں کو پہلی بارجیل میں سکھائے گئے ہنر کا معاوضہ ملنا شروع ہوگیا جس سے نہ صرف وہ جیل کے اندر اپنا چھوٹا موٹا خرچہ اٹھانے کے قابل ہو گئے ہیں بلکہ اپنے اہل خانہ کی کفالت بھی کر سکیں گے۔

محکمہ داخلہ پنجاب کے ترجمان توصیف صبیح گوندل نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اسی سلسلے میں پنجاب کی جیلوں میں کچھ عرصہ سے قیدیوں کو مختلف ہنر سکھانے کی تربیت دی جا رہی تھی۔

’یہ نیا سیٹ اپ ہے کہ باقائدہ ایک انڈسٹری بنوائی گئی اور نجی سیٹ اپ کو اس میں شامل کیا گیا۔ اس پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ میں ورکرز ہمارے قیدی ہیں، جگہ ہماری ہے باقی خام مال پرائیویٹ سیکٹردیتا ہے، اس میں محنت قیدی کر رہے ہیں اس لیے پرائیویٹ سیکٹر انہیں ان کی محنت کے پیسے دے رہا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’مختلف جیلوں میں ابھی اس پر کام ہو رہا ہے کہ ان قیدیوں کی کیا کیا اجرت ہونی چاہیے؟ ہر جگہ مزدوری الگ ہے جیسے  ڈسٹرکٹ جیل شاہ پور میں قیدیوں کو عید سے قبل نوروزی چپل کی تیاری پر 10 ہزار روپے معاوضہ دیا گیا۔‘

سپرنٹنڈنٹ شاہ پورجیل ابوبکر عبداللہ نے بتایا کہ ’ماہرین کی زیر نگرانی قیدیوں نے اعلیٰ معیار کی نوروزی چپل تیار کرنا سیکھی۔ قیدیوں کی تیار کردہ نوروزی چپل اپنی خوبصورتی، معیار اور پائیداری میں منفرد ہے۔‘

انہوں نے بتایا ’یہاں قیدی ہاتھ کی بنی نوروزی چپیلں تیار کر رہے ہیں جس کے دو حصے ہیں ایک اوپر کا کام ہے اور ایک سول کا۔ اپر کے کام میں 12 پیسز کو ایک آئٹم کہتے ہیں اور اسی طرح سول کے 12 پیاسے کو الگ آئٹم کہتے ہیں۔ قیدیوں کو فی آئٹم (12 پیس) مزدوری 455 روپے مل رہے ہیں جبکہ مارکیٹ میں 450 روپے دیے جاتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ مختلف چپلیں بنانے کا معاوضہ مختلف ہے کچھ کی مزدوری مارکیٹ میں 330 ہے لیکن قیدیوں کو 340 روپے دیے جا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ قیدیوں کو مارکیٹ میں دی جانے والی مزدوری سے پانچ 10 روپے زیادہ دیے جارہے ہیں کیونکہ اس میں وینڈر منافع کو مدنظر نہیں رکھ رہا بلکہ وہ اپنی کمپنی کی کارپوریٹ سوشل رسپانسبیلیٹی (سی ایس آر) میں رہتے ہوئے چیریٹی بیسڈ کام کر رہے ہیں تاکہ اسیران ہنر سیکھ کر اپنے گھر والوں کی کفالت کے قابل ہو سکیں اور معاشرے کے فعال شہری بن سکیں۔

توصیف صبیح گوندل نے بتایا ’جیلوں میں جو چیزیں بن رہی ہیں ان کا الگ الگ ریٹ ہے اس لیے ان کے ساتھ ہر جیل میں الگ الگ معاہدے کیے گئے ہیں۔ قصور میں بوٹ بن رہے ہیں، شاہ پور میں کھیڑیاں بن رہی ہیں اسی طرح جس انڈسٹری سے معاہدہ ہوا ان سے یہ فارمولا طے ہوا کہ وہ ایک جوڑا جوتے کی جو اجرت باہر دیتے ہیں وہی اجرت وہ جیل کے قیدی کو دیں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ چونکہ جگہ ان کی ہے اور وہاں بجلی وغیرہ خرچ ہو رہی ہے تو اس کا خرچ وہ ادارہ دے گا جس کے لیے قیدی چیزیں بنا رہے ہیں۔

اسی طرح خام مال بھی وہی ادارہ دے رہا ہے اور قیدیوں کی تربیت بھی اسی ادارے نے کی جبکہ قیدیوں کو اسی ادارے سے اپنی محنت کے پیسے مل رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ جتنی انڈسٹریز اس میں شامل ہوئی ہیں ان کے ماہریں نے آ کر پہلے قیدیوں کو تربیت دی۔

’قیدی کام سیکھتے ہیں، پھر کام کر کے دیتے ہیں اور انہیں اجرت ملتی ہے۔ مثال کے طور پر ایل ای ڈٰی بلب بن رہے ہیں اور ان کو ٹھیک بھی کیا جارہا ہے اسی طرح استریاں ٹھیک کی جا رہی ہیں، موٹر مکینک کا کورس شروع کرایا گیا ہے اسی طرح حجام بنائے جارہے ہیں اور تمام جیلوں میں حجام سینٹر بنائے گئے ہیں جہاں قیدیوں کی تربیت ہو رہی ہے تاکہ یہ جیل سے نکل کر حجام بن سکیں۔‘

محکمہ داخلہ پنجاب کے ترجمان کا کہنا تھا کہ قیدیوں کے ہاتھوں تیار کردہ نوروزی چپل مارکیٹ میں فروخت ہو رہی ہے جس کی فروخت سے حاصل ہونے والی اجرت براہِ راست قیدیوں کے ذاتی اکاؤنٹس میں جمع ہوتی ہیں۔

’جیلوں میں ہر قیدی کا اپنا اکاؤنٹ بنایا گیا ہے اس سے فائدہ یہ ہوا ہے کہ ویسے تو قیدیوں کو جیل میں کھانا وغیرہ تو مل رہا ہے لیکن اگر انہیں کبھی کوئی اضافی چیز چاہیے ہوتی تھی جیسے اگر انہیں جیلوں میں بنے یو ٹیلیٹی سٹور سے کچھ خریدنا ہے تو وہ اپنے خاندان سے پیسے منگواتے تھے لیکن اب اجرت ملے گی تو وہ ان کے اپنے اکاؤنٹ میں چلی جائے گی جسے وہ جب چاہیں خرچ کر سکیں گے۔

’اس کا پہلا فائدہ یہ ہوا کہ وہ اپنے خاندان پر بوجھ نہیں بنیں گے دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اگر وہ مستقل کام کرتے رہتے ہیں اور انہیں اس کام کی مستقل اجرت ملتی رہے گی تو وہ اپنے خاندان کی کفالت میں بھی مدد گار ثابت ہوں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی نظر میں سب سے اہم مقصد یہ تھا کہ قیدیوں کو ہنر سکھایا جائے تاکہ جب یہ جیل سے آزاد ہوں تو ایک باعزت روزی کما سکیں اور جرائم سے بچ سکیں۔

انہوں نے بتایا کہ جیل میں موجود خواتین قیدیوں کے لیے بھی خاص طورہدایات تھیں کہ  انہیں بیوٹیشن کا کورس کروایا جائے اس لیے اب جن جن جیلوں میں خواتین ہیں وہاں وہاں انہیں بیوٹیشن کا کورس بھی کروایا جارہا ہے اور ہینڈی کرافٹ بھی سکھایا جارہا ہے تاکہ وہ بھی باہر آ کر اپنا کام کر سکیں۔

اسی طرح جہاں بچے قیدی ہیں وہاں ہدایت تھی کہ انہیں انفارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلقہ کورسسز کروائے جائیں جیسے گرافک ڈیزائننگ وغیرہ تاکہ وہ مارکیٹ میں نکل کر اپنا کام کر سکیں۔ بڑی عمر کے قیدی جو پڑھے لکھے بھی نہیں ہیں انہیں ہینڈی کرافٹ کا ہنر سکھایا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ گوجرانوالہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری قیدیوں کی تیار کردہ پراڈکٹ کی فروخت، کسٹمر سروس اور ڈیلیوری میں معاون ہے۔

ترجمان محکمہ داخلہ کا کہنا تھا کہ پنجاب بھر کی جیلوں میں قیدی مختلف مصنوعات تیار کر رہے ہیں جن میں اعلیٰ معیار کا فرنیچر، قالین، ہینڈی کرافٹس، برتن، پیپر، ٹائلیں، فینائل، پرفیوم، صابن، ایل ای ڈی بلب، ٹشو پیپر، فٹبال وغیرہ جبکہ مختلف جیلوں میں قیدیوں کو موٹر مکینک، حجام، خانساماں، بیوٹیشن اور آئی ٹی کے کورسز بھی کروائے جا رہے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان