سردی نے اپنا بوریا بستر لپیٹ لیا ہے اور آمد بہار ہے۔ وہ چمن زار اور پہاڑ جنہوں نے موسم سرما کی چادر لمبے عرصے سے تان رکھی تھی اب انگڑائی لے کر جاگنے کو تیار ہیں۔
سورج کی چمک بھی بہار کی آمد کا پتہ دیتی ہے اور ماحول میں پھولوں کی خوشبو اور رنگوں کی ہولی بکھرنے کو ہے۔
شاعر جلیل مانک پوری کہتے ہیں:
موسم کی اس دلکشی کو شعرا نے بھی ہر موڈ اور ڈھنگ کے ساتھ یکجا کر کے بیان کیا ہے۔ صرف اردو میں ہی نہیں بلکہ جہاں جہاں قدرت نے جب جب بہار اتاری ہے لکھنے والوں نے موسم کے رنگوں کو اپنی شاعری میں بھگو کے لکھا ہے۔
موسم بہار اور جنوبی ایشیا میں اس کے استقبال اور رعنائی کو شاعر افتخار عارف کی نظر سے جب دیکھیں تو ان کے بقول انڈیا اور پاکستان میں میلے اور تہوار منائے جاتے ہیں۔ شمال میں نوروز کا اہتمام مذہبی ایام سے کم نہیں ہوتا۔ نوروز، ایران میں آمد بہار ہی کی نشانی ہے۔
دیکھا جائے تو بہار کی آمد کے ساتھ ہی فصل کی کٹائی بھی شروع ہو جاتی ہے اور کسانوں کے لیے ’دھن‘ بھی برستا ہے ۔ اس کے علاوہ بقول افتخار عارف انڈیا میں رنگوں کا تہوار ہولی اور پاکستان میں پتنگوں کا تہوار بسنت منایا جاتا ہے تو خانقاہوں میں رنگ کے عنوان سے قوالیاں گائی جاتی ہیں:
’جس کی چندری رنگ دیو دھن دھن وا کے بھاگ‘
لیکن دوسری طرف پاکستان میں پتنگ بازی پہ پابندی بھی عائد ہے۔ ہندو کیلنڈر میں دیکھا جائے تو ’ماگھ‘ کے مہینے کی پانچویں تاریخ کو بسنت رت یا موسم بہار کا آغاز کیا جاتا ہے اور اسے ’بسنت پنچمی‘ بھی کہتے ہیں۔
جب کھیتوں میں سرسروں پھولنے لگتی ہے اور خواتین بسنتی رنگ کے لباس زیب تن کر کے بسنت مناتی ہیں۔
انگریزی کیلنڈر میں بہار کا موسم 20 مارچ سے شروع ہو کر جون کے تیسرے ہفتے تک جاری رہتا ہے اور پھر چھا جاتی ہیں ’برسات کی بہاریں۔‘
تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ امیر خسرو سے قبل مسلمانوں میں بسنت اور بسنت کے میلوں کا رواج نہ تھا۔ خسرو وہ پہلے مسلمان ہیں جنہوں نے دہلی میں 13ویں صدی میں بسنت کے جشن کی شروعات کی۔
امیر خسرو نے نہ صرف مسلمانوں میں بسنت منانے کا رواج قائم کیا بلکہ اس سے جڑی بے حد خوبصورت شاعری بھی کی جو آج بھی موسم بہار کو منانے میں ایک اہم کڑی مانی جاتی ہے جیسے ’سکل بن پھول رہی سرسوں۔‘
انڈیا کی تاریخ دان، سکالر اور لکھاری رعنا صفوی سے جب انڈپینڈنٹ اردو نے کہا کہ وہ ہمارے لیے بسنت اور امیر خسرو کی شاعری پہ تاریخ کو ٹٹولیں تو انہوں نے مختصراً یہ کہانی سنائی ڈالی، جو دہلی میں صوفی شاعر خسرو اور صوفی بزرگ نظام الدین اولیا سے منسوب ہے۔
13’ویں صدی کے صوفی بزرگ حضرت نظام الدین اولیا کی کوئی اولاد نہ تھی۔ ان کو اپنے بھانجے خواجہ نوح سے بہت انس تھا جو ایک بیماری میں وفات پا گئے۔ تو دوسری طرف امیر خسرو نظام الدین اولیا کے قریبی شاگردوں میں سے ایک تھے۔
’کہا جاتا ہے کہ حضرت نظام الدین اولیا اپنے بھانجے کی وفات سے اس قدر غمگین تھے کہ چھ ماہ تک مسکرائے بھی نہیں۔ اسی دوران موسم کی رت بدلی اور خسرو صاحب نے بسنتی ساڑھیوں میں ہندو خواتین کو سرسوں کے پھول تھالی میں سجائے مندر جاتے دیکھا، وہ اس نظارے پہ متجسس ہوئے اور ان خواتین کو روک کے پوچھ ڈالا کہ وہ بسنت رنگ میں رنگی مندر کیوں جاتی ہیں، ’کیا اس طرح ان کا بھگوان خوش ہو گا؟‘‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عورتوں نے جواب دیا کہ ’ہاں، ہمارا بھگوان خوش ہو گا۔‘
’یہ سننا تھا کہ امیر خسرو نے پیلی ساڑھی پہنی اور پیلے پھولوں کی تھالی سجائے حضرت نظام الدین اولیا کے سامنے پیش ہوئے، حضرت نے جب اپنے چہیتے شاگرد کو یوں دیکھا تو بے اخیتیار مسکرا اٹھے۔
’تب سے اب تک دہلی میں نظام الیدین اولیا کی درگاہ پہ ہر سال موسم بہار میں بسنت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔‘
پاکستان میں موسم بہار کو منانے کے حوالے سے ناقد اور تجزیہ نگار ناظر محمود کا ماننا تھا کہ شہری لوگ بہار کی آمد کوکیا ہی بہتر سمجھ پائیں گے جو اس کا جشن دیہاتوں میں منانے کا انداز ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’سرد موسم کی اداسی اور پت جھڑ سے موسم بہار کی تبدیلی اور پھولوں کا کھلنا نئی فصلوں کی بوائی سب وہ مواقع ہیں کہ جنہیں پاکستان بھر کے شہروں اور دیہاتوں میں مل کر منانا چاہیے اور وہ بھی سرکاری سطح پہ لیکن افسوس ایسا نہیں ہو پاتا۔‘
دیکھا جائے تو ملک بھر میں موسم بہار کا استقبال رنگ و رقص کے ساتھ کیا جانا چاہیے، لیکن بہت سے سماجی اور سرکاری عناصر کے باعث ہم اپنے لوگوں کو یہ موقع منانے نہیں دے پاتے۔
موسم بہار پہ پھولوں اور باغبانی کے ماہرین کیا منظر کشی کرتے ہیں اس حوالے سے ہورٹی کلچرسٹ توفیق پاشا نے بتایا کہ ’بہار کا انتظار صرف باغبان یا کسان ہی نہیں کرتے بلکہ چرند پرند بھی کر رہے ہوتے ہیں کہ کب جاڑا تھمے اور دھوپ کی تمازت سے پھولوں کو رنگ ملیں اور رنگوں سے باغ سجیں، پرندوں کے انڈوں سے بچے چونچیں نکالیں اور شہد کی مکھیاں پھولوں کے رس سے اپنی بھوک مٹائیں۔
’اسی طرح پت جھڑ سے گزر کر سنبل، گل موہر اور املطاس کر درختوں پہ پتوں سے پہلے پھول کھلنا شروع ہو جاتے ہیں۔‘
یہ لکھتے لکھتے ایک خیال سا گزرا کہ حضرت نظام الدین اولیا اپنے شاگرد امیر خسرو کو بسنتی رنگ کی ساڑھی میں دیکھ کر مسکرائے تھے یا بسنت کے رنگ نے ان کے دل کو خوشی دی۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔