انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) اور اے جی ایچ ایس لیگل ایڈ سیل کے مشترکہ فیکٹ فائنڈنگ مشن نے کہا ہے کہ ’فورنزک شواہد اور قابل بھروسہ شہادتوں کی عدم موجودگی میں یہ حتمی نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ اکتوبر 2024 کے اوائل میں لاہور کے ایک نجی کالج میں ایک طالبہ کے ریپ کے الزامات حقیقت پر مبنی تھے۔‘
جمعے کو ایچ آر سی پی کے چیئرپرسن اسد اقبال بٹ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ فیکٹ فائنڈنگ مشن نے 14 اکتوبر کو ’سینکڑوں طالبات کے خلاف طاقت کے بے جا استعمال کی شدید مذمت کی۔‘
بیان کے مطابق: ’آن لائن پلیٹ فارمز پر بہت زيادہ شورو غل سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ دیگر فریقین نے طالب علموں کے بیانیے کو اپنے مفاد میں استعمال کرنے اور سوشل میڈيا پر اپنا دائرہ کار بڑھانے کی کوشش کی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بیان میں بتایا گیا کہ مشن کے مشاہدے کے مطابق ’طالب علموں کے ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ تعلیمی اداروں میں سکیورٹی کی صورت حال اور جنسی ہراسانی کے مسلسل واقعات اور متاثرین ہی کو مورد الزام ٹھہرانے کی روش سے بہت زيادہ نالاں ہیں۔‘
مشن کے مطابق؛ ’طالب علموں کے غصے کو محض اس وجہ سے نظرانداز نہیں کر دینا چاہیے کہ وہ من گھڑت معلومات ملنے کی وجہ سے مشتعل تھے، تاہم من گھڑت معلومات کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کے پیش نظر یہ بھی ضروری ہے کہ ڈیجیٹل خواندگی اور حقائق کا ادراک آسان بنانے کے لیے باقاعدگی کے ساتھ عوامی سطح پر ایک سے زیادہ نتیجہ خیز شعوری مہم چلائی جائے۔‘
مشن نے بیان میں دیگر سفارشات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’مشن یہ تجویز بھی پیش کرتا ہے کہ کیمپس پر 10 اکتوبر کے پہلے دو ہفتوں کے دورانیے کی سی سی ٹی وی فوٹیج کا فورنزک معائنہ کروایا جائے۔‘
مشن نے طالب علموں پر تشدد کرنے اور مبینہ جرم کے الزام میں ایک شخص کو ایف آئی آر کے بغیر حراست میں رکھنے پر پولیس کے محاسبے کا مطالبہ بھی کیا۔
واقعہ کیا تھا؟
گذشتہ ماہ اکتوبر کے اوائل میں سوشل میڈیا پر لاہور میں نجی کالج کی ایک طالبہ سے کالج کے سکیورٹی گارڈ کے مبینہ ریپ کی خبر وائرل ہوئی، جس کے بعد پولیس نے اپنی کارروائی شروع کی۔ اس دوران کالج کے طالب علموں نے کالج کے باہر احتجاج کیا اور سکیورٹی کے عملے سے مڈ بھیڑ میں کچھ طالب علم زخمی بھی ہوئے۔
اسی حوالے سے پنجاب پولیس کی جانب سے اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس (اے ایس پی) ڈیفنس سیدہ شہربانو نقوی کا ایک ویڈیو بیان آفیشل سوشل میڈیا پر چلایا گیا جبکہ پنجاب پولیس نے بھی شہر بانو نقوی کا ایک بیان اپنے ایکس اکاؤنٹ پر چلایا۔
اس بیان میں اے ایس پی شہربانو نقوی کا کہنا تھا: ’لاہور میں افسوس ناک صورت حال سامنے آئی جس کی وجہ ڈس انفارمیشن تھی۔ ہمیں یہ سننے کو ملا کہ ایک نجی کالج کی طالبہ جس کے ساتھ مبینہ طور پر ریپ کیا گیا، انہیں نجی ہسپتال میں لے جایا گیا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’ہم نے اس نجی ہسپتال کا ریکارڈ چیک کیا۔ اس سے یہ بات سامنے آئی کہ ریپ کا شکار کسی بھی لڑکی کو اس ہسپتال میں داخل نہیں کیا گیا۔‘
پنجاب پولیس کے ترجمان نے بھی اپنے بیان میں کہا تھا کہ مبینہ واقعے کے حوالے سے اگر کسی شہری کے پاس کوئی بھی معلومات ہیں تو ورچوئل ویمن پولیس سٹیشن کو مطلع کریں۔
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے بھی اپنی پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ 10 اکتوبر کو رپورٹ ہونے والے اس واقعے میں طالبہ کے مبینہ ریپ کے کوئی شواہد نہیں ملے۔
مریم نواز کا مزید کہنا تھا کہ طالبہ کے ریپ کی ’جھوٹی خبر‘ کی منصوبہ بندی کے تانے بانے خیبر پختونخوا اور بیرون ممالک سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے ملتے ہیں۔