افغانستان کی ایک تہائی آبادی کو سخت سردی کے باعث بھوک کا سامنا

ورلڈ فوڈ پروگرام اور تنظیم ’سیو دی چلڈرن‘ کی پیش گوئی کے مطابق افغان بچے خاص طور پر آئندہ تین مہینوں میں زندہ رہنے کے لیے انتہائی مشکل حالات کا سامنا کریں گے۔

18 جنوری 2022 کی اس تصویر میں کابل میں ایک بچہ ایک تنظیم کی جانب سے تقسیم کی جانے والی روٹیاں لیے کھڑا ہے (وکیل کوہسار/ اے ایف پی)

امداد دینے والے اداروں نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان میں اس موسم سرما کے دوران ہر تین میں سے کم از کم ایک فرد شدید غذائی قلت کا شکار ہوگا، کیونکہ جنگ سے متاثرہ یہ ملک قحط یا ایمرجنسی سطح کی بھوک کا سامنا کر رہا ہے۔

ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) اور ’سیو دی چلڈرن‘ نامی این جی او کی پیش گوئی کے مطابق، خاص طور پر بچے آئندہ تین مہینوں میں زندہ رہنے کے لیے انتہائی مشکل حالات کا سامنا کریں گے۔

ادارے کے ترجمان فلپ کروف نے افغانستان سے ٹیلی فون پر انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’سردی کا موسم افغانستان میں بھوک کے اثرات سب سے زیادہ شدید بنا دیتا ہے اور ڈبلیو ایف پی کو توقع ہے کہ تقریباً ڈیڑھ کروڑ افراد یا افغانستان کی آبادی کے تقریباً ایک تہائی حصے کو زندہ رہنے کے لیے خوراک کی مدد کی ضرورت ہوگی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اگلے سال رواں برس کے مقابلے میں مزید پانچ لاکھ 70 ہزار بچے غذائی قلت کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ہمیں توقع ہے کہ 2025 میں کل 34 لاکھ 50 ہزار بچے غذائی قلت کا شکار ہوں گے۔‘

’سیو دی چلڈرن‘ کے ایک اور جائزے کے مطابق افغانستان کی نصف سے زیادہ آبادی تقریباً دو کروڑ 40 لاکھ افراد کو آنے والے مہینوں میں غربت اور غذائی عدم تحفظ سے بچنے کے لیے نقد رقم اور خوراک کی فراہمی جیسی انسانی امداد کی اشد ضرورت ہوگی۔

افغانستان میں اس غیر منافع بخش تنظیم کے کنٹری ڈائریکٹر ارشد ملک کے مطابق: ’سردیوں کی آمد اور درجہ حرارت گرنے کے ساتھ افغانستان کے کچھ حصوں میں خاندانوں کو دلخراش فیصلے کرنے پڑ رہے ہیں کہ کس چیز کو ترجیح دیں – کھانے کو، حرارت کو، یا بچوں کے لیے گرم کپڑوں کو۔

ایک خاندان نے کہا کہ وہ اس بات سے پریشان ہیں کہ وہ سردیوں میں کیسے زندہ رہیں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ان کے بچوں کو کھانے کے لیے روٹی ہی دستیاب ہو جائے۔‘

ارشد ملک نے کہا کہ افغان بچے خشک سالی، سیلاب، نقل مکانی اور خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے ہونے والی تباہی سے دوچار ہیں۔ تقریباً 65 لاکھ بچے یا 30 فیصد بچے بحران یا ہنگامی سطح کی بھوک کا سامنا کر رہے ہیں۔

انہوں نے  دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’ایک بچے نے ہمیں بتایا کہ اس کے پاس کوئی گرم کپڑے نہیں ہیں، جب تک کہ تنظیم ’سیو دی چلڈرن‘ کی طرف سے فراہم نہیں کیے جاتے اور اسے اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ موزے بانٹنے پڑ رہے ہیں۔‘

فلپ کروف نے کہا کہ ڈبلیو ایف پی کو اگلے چھ ماہ کے دوران اپنے تمام پروگراموں میں 78 کروڑ 70 لاکھ ڈالر کی ضرورت ہوگی تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ افغانستان میں خطرے سے دو چار خاندان بھوک اور غربت کا شکار نہ ہوں۔

انسانی امداد فراہم کرنے والے اداروں کی طرف سے 171 اضلاع میں تقریباً ایک کروڑ 60 لاکھ افراد کو موسم سرما میں فراہم کی جانے والی امداد کے لیے ترجیحی فہرست میں درج کیا گیا ہے۔

’سیو دی چلڈرن‘ کا کہنا ہے کہ رواں موسم سرما میں افغانستان کا تقریباً 43 فیصد حصہ شدید متاثر ہوگا جبکہ 56 فیصد معمولی طور پر متاثر ہوں گے اور انہیں بھی مدد کی ضرورت ہوگی۔

خوراک کی قلت کے علاوہ سرد موسم سے صحت کے لیے بھی خطرات بڑھ جاتے ہیں۔

ارشد ملک نے کہا کہ لاکھوں افغان سردیوں کی ایسی شدت کا سامنا کر رہے ہیں، جو مدافعتی نظام کو کمزور کر سکتی ہے اور سانس کے انفیکشنز کا شکار ہونے کے امکانات بڑھا سکتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ چونکہ موسم سرما میں خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے، لاکھوں افغانوں خاص طور پر بچوں کو غذائیت سے بھرپور خوراک کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس طرح شدید غذائی قلت کا خطرہ بڑھ جائے گا۔

طالبان کے دور میں فعال معیشت کی عدم موجودگی کے  ساتھ ساتھ برف باری سے سڑکیں بند ہونے، امداد کی ترسیل میں رکاوٹ اور ملک کے دور دراز علاقوں میں بہت سی برادریوں کا رابطہ منقطع ہونے کی وجہ سے یہ مسئلہ مزید پیچیدہ ہو گیا ہے۔

اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی امور کے مطابق سردیوں کے دوران افغانستان میں مشکلات کا سامنا کرنے والے کمزور افراد کی مدد کے لیے کم از کم ایک ارب ڈالر امداد کی ضرورت ہے تاکہ وہ اس سخت موسم کا مقابلہ کر سکیں۔

’سیو دی چلڈرن‘ کے اعداد و شمار کے مطابق بین الاقوامی برادری ابھی تک انسانی امداد کی ضروریات کو پورا نہیں کر سکی ہے۔

ارشد ملک نے کہا کہ ’اگرچہ انسانی امداد افغان برادریوں کے لیے لائف لائن رہی ہے لیکن 2024 کے لیے انسانی امداد کی اپیل کو 27 نومبر تک درخواست کردہ فنڈز کا صرف 37.5 فیصد موصول ہوا  ہے، جس سے فنڈنگ میں 62 فیصد کا فرق باقی ہے۔‘

طالبان حکومت نے موسم سرما کے مسائل سے نمٹنے کے لیے عوامی طور پر کسی اقدام کا اعلان نہیں کیا ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا