ایک برطانوی جوڑے جن کی عمریں 70 سال سے زیادہ ہیں اور انہیں آخری مرتبہ طالبان کی طرف سے قیدی بنائے دیگر افراد کے ساتھ زنجیروں میں جکڑا ہوا دیکھا گیا، کے اہل خانہ نے کہا ہے کہ مقدمے میں تاخیر کے باعث انہیں جوڑے کی صحت پر تشویش ہے۔
79 سالہ پیٹر رینلڈز اور ان کی 75 سالہ اہلیہ باربی کو فروری میں اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ افغانستان کے وسطی صوبے بامیان میں اپنے گھر جا رہے تھے۔
ہفتے کو انہیں زنجیروں میں لایا گیا تاکہ وہ اپنے خلاف الزامات سن سکیں لیکن مقدمے کی سماعت اس وقت منسوخ کر دی گئی جب جج کو ’آخری لمحے پر‘ تبدیل کر دیا گیا۔
برطانوی جوڑے کے حامیوں نے کابل کی انتہائی سکیورٹی والی جیل میں ان کے حالات کو ’بے حد ظالمانہ‘ قرار دیا اور کہا کہ یہ حالات ’ایسے ہیں جیسے شاید جہنم ہو۔‘
یہ جوڑا، جس نے 1970 میں افغانستان میں شادی کی، امید کر رہا ہے کہ اگلے ہفتے کے آغاز پر اسے عدالت میں ’منصفانہ‘ پیشی کا موقع ملے گا۔
ان کی بیٹی سارہ انٹ وسل نے بتایا کہ جیل کے محافظوں نے انہیں ایک دوسرے سے الگ رکھا ہوا ہے۔
سارہ انٹ وسل نے اخبار دی گارڈین کو بتایا کہ ’والدہ کی صحت تیزی سے بگڑ رہی ہے اور غذائی قلت کے باعث وہ گر جاتی ہیں۔ انہیں اور دیگر خواتین کو دن میں صرف ایک وقت کا کھانا دیا جا رہا ہے جب کہ مرد قیدیوں کو تین وقت کا کھانا ملتا ہے۔‘
’والد کی صحت بھی مسلسل گرتی جا رہی ہے، ان کے سر اور بائیں بازو میں جھٹکے لگتے ہیں۔‘
جوڑے کی بیٹی نے مزید بتایا کہ جوڑے نے ’چار گھنٹے فرش پر دوسرے قیدیوں کے ساتھ زنجیروں میں بیٹھ کر گزارے جس کے بعد انہیں واپس جیل لے جایا گیا۔
’آخری لمحے پر انہیں بتایا گیا کہ جج ان کے مقدمے کی سماعت نہیں کریں گے۔ محافظوں نے اشارہ کیا کہ اب کوئی دوسرا جج یہ مقدمہ سنے گا، اور ہم اب بھی امید کرتے ہیں کہ انہیں آنے والے ہفتے میں منصفانہ سماعت کا موقع ملے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ باربی رینلڈز کو جج کے سامنے بیٹھنے کے لیے چار منزلہ سیڑھیاں چڑھنے میں مدد کی ضرورت پڑی۔
’ابھی تک ان پر کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا اور کسی جرم کا کوئی ثبوت بھی پیش نہیں کیا گیا۔ ہم اس تاخیر سے شدید دل شکستہ ہیں۔ یہ سب بالکل بے معنی لگتا ہے، خاص طور پر اس لیے کہ طالبان بارہا کہہ چکے ہیں کہ یہ ساری صورت حال محض غلط فہمیوں کا نتیجہ ہے اور وہ انہیں ’جلد‘ رہا کر دیں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ تمام صورت حال اس کے بعد سامنے آئی جب انہیں جمعرات کو زنجیروں میں جکڑ کر عدالت لے جایا گیا جہاں باربی رینلڈز ’نحیف دکھائی دے رہی تھیں اور کھڑے ہونے میں بھی مشکل محسوس کر رہی تھیں۔‘
ان سب کے ہاتھوں اور پاؤں میں بیڑیاں لگی ہوئی تھیں، اور اگرچہ وہ آخرکار ایک دوسرے کو دیکھ پائے لیکن انہیں بات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ عدالت میں تفتیش کار نے ان سے سخت رویہ اختیار کیا، لیکن بعد میں وہ ’باوقار انسان‘ ثابت ہوئے۔ انہوں نے بتاہا کہ جوڑے کے خلاف ’کسی بھی جرم کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔‘ جس سے یہ امید پیدا ہو گئی کہ شاید انہیں جلد رہا کر دیا جائے گا۔
برطانوی جوڑا گذشتہ 18 سال سے افغانستان میں مقیم ہے اور افغان شہریت بھی حاصل کر چکا ہے۔ میاں بیوی افغانستان کو اپنا ’گھر‘ کہتے ہیں۔ جب 2021 میں طالبان نے اقتدار سنبھالا تو انہوں نے ملک چھوڑنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ ’اپنے پیارے ملک اور لوگوں کو ان کے مشکل ترین وقت میں تنہا نہیں چھوڑ سکتے۔‘
جوڑے کو گذشتہ ماہ ایک امریکی دوست فے ہال کے ساتھ گرفتار کیا گیا جنہوں نے ان کے ساتھ سفر کے لیے طیارہ کرائے پر لیا تھا۔ ان کی تنظیم ’ری بلڈ‘ کے ملازمین کے مطابق ان کے ساتھ کام کرنے والی افغان مترجم، جویا، کو بھی گرفتار کیا گیا۔
گرفتاری کے بعد انہیں الگ کر کے انتہائی سکیورٹی والی جیل میں منتقل کر دیا گیا۔ اہلِ خانہ کے مطابق باربی رینلڈز کو طالبان کی طرف سے مار پیٹ اور زنجیروں میں جکڑے جانے کے بعد شدید تکلیف کا سامنا ہے۔
ان کی بیٹی کے بقول: ’ان کی صحت خطرناک حد تک بگڑ چکی ہے۔ ہمیں اطلاع ملی ہے کہ انہیں سینے میں انفیکشن ہو گیا ہے، دونوں آنکھوں میں شدید انفیکشن ہے، اور ناقص غذا کی وجہ سے نظام ہضم کے سنگین مسائل لاحق ہیں۔ اگر انہیں فوری طور پر ضروری دوا نہ ملی تو ان کی جان کو سنجیدہ خطرہ لاحق ہو گا۔‘
انہوں نے طالبان سے ایک گذشتہ اپیل میں کہا کہ ’ہم ایک بار پھر طالبان سے گزارش کرتے ہیں کہ رمضان کے اس مقدس مہینے میں حسن سلوک کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے والد، والدہ، فے اور مترجم کو رہا کیا جائے۔‘
© The Independent