افغان طالبان نے پیر (11 نومبر) سے آذربائیجان میں شروع ہونے والے اقوام متحدہ کے موسمیاتی سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے اپنے عہدیداروں کو باکو بھیجا ہے، جو اقتدار میں آنے کے بعد طالبان حکام کی اس فورم میں پہلی شرکت ہوگی۔
طالبان کی وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخی نے اتوار کو کہا کہ ملک کی نیشنل انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی کے حکام کوپ 29 کانفرنس میں شرکت کے لیے آذربائیجان پہنچ گئے ہیں۔
اگست 2021 میں کابل میں اقتدار سنبھالنے کے بعد طالبان اس ماحولیاتی ایجنسی کو تین سال سے زیادہ عرصے سے کنٹرول کر رہے ہیں۔
طالبان کی عبوری حکومت کو اقوام متحدہ اور بین الاقوامی برادری نے باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے کیونکہ انہوں نے خواتین پر تعلیم اور ملازمت میں حصہ لینے پر پابندی سمیت اپنے شہریوں کے بنیادی حقوق پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔
اقوام متحدہ طالبان حکام کو جنرل اسمبلی میں افغانستان کی نشست دینے سے انکار کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر ملک کی نمائندگی کے لیے سابق اشرف غنی انتظامیہ کے مقرر کردہ نمائندوں کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔
طالبان کے ایک سفارتی ذرائع نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ آذربائیجان نے افغان ماحولیاتی ایجنسی کے اہلکاروں کو کوپ 29 اجلاس میں بطور مبصر مدعو کیا ہے، جس سے طالبان حکام کو ممکنہ طور پر بحث میں حصہ لینے اور ممکنہ طور پر دوطرفہ ملاقاتیں کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
لیکن اجلاس میں طالبان حکام کو مکمل رکن ممالک کی کارروائی میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی کیونکہ طالبان کی عبوری حکومت کو اقوام متحدہ کے نظام میں افغانستان کی جائز قیادت کے طور پر تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔
اب تک اقوام متحدہ نے طالبان کو محض دوحہ میں افغانستان کے مستقبل پر خصوصی طور پر مذاکرات کی دعوت دی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چین اور روس، جنہوں نے عبوری افغان انتظامیہ کے ساتھ محدود سفارتی تعلقات کو فروغ دینے پر آمادگی ظاہر کی ہے، گذشتہ دو سالوں میں افغان وزرا کو چین اور وسطی ایشیا کے فورمز میں شرکت کی دعوت دے چکے ہیں۔
افغانستان گذشتہ ایک سال میں یکے بعد دیگرے موسم کے حوالے سے ہنگامی صورت حال سے بری طرح متاثر ہوا ہے، جس میں بدترین سیلاب، طوفانی بارشیں اور خشک سالی شامل ہیں۔
افغانستان کے دور دراز علاقوں میں آنے والے سیلاب سے رواں سال کئی دیہات بہہ گئے اور سینکڑوں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ جنگ سے تباہ حال اس ملک کا بہت زیادہ انحصار زراعت پر ہے لیکن سیلاب اور خشک سالی نے کھیتوں میں کھڑی فصلوں اور زرعی پیداوار کا صفایا کر دیا ہے۔
بین الاقوامی تنہائی نے ملک کی معاشی مشکلات کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے، جس سے اس کی آبادی کرہ ارض پر غریب ترین افراد میں شامل ہے۔
تنازعات سے متاثرہ ممالک کی ایک بین الحکومتی تنظیم ’جی سیون پلس‘ کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری حبیب مایار نے کہا کہ ’افغانستان ان ممالک میں سے ایک ہے جو اپنی ضروریات کے لحاظ سے حقیقتاً بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ یہ وہ دوہری قیمت ہے جو اس کے عوام ادا کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’وہاں توجہ اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ روابط کا فقدان ہے، جس سے انسانی ضروریات میں اضافہ ہو رہا ہے۔‘
© The Independent