2012 میں ’وائن‘ نامی ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم کا آغاز ہوا تھا۔ لوگ اس پلیٹ فارم پر چند سیکنڈز کی ویڈیوز اپ لوڈ کر سکتے تھے۔
وائن نے ویڈیوز کے انداز کو یکسر بدل دیا۔ جو کہانیاں پہلے طویل دورانیے کی ویڈیوز میں دکھائی جاتی تھیں، اب وہی چند سیکنڈز میں پیش ہونے لگیں۔
جلد ہی اس فارمیٹ نے دیکھنے والوں کی توجہ حاصل کر لی اور یوں مختصر ویڈیوز کا رجحان عام ہوتا گیا۔
2016 میں چینی کمپنی بائٹ ڈانس نے ٹک ٹاک لانچ کیا اور مختصر ویڈیوز کے اس تصور کو نئی بلندیوں تک پہنچا دیا۔
ٹک ٹاک نے ایسی مقبولیت حاصل کی، جس کا تصور بھی مشکل تھا۔ یہ پلیٹ فارم نہ صرف شہروں بلکہ دیہات تک مقبول ہو گیا اور ہر عمر کے افراد ٹک ٹاک ویڈیوز بنانے اور دیکھنے میں مصروف ہو گئے۔
ٹک ٹاک کی مقبولیت دیکھتے ہوئے 2020 میں انسٹاگرام نے ’ریلز‘ کے نام سے اپنا مختصر ویڈیوز کا فیچر متعارف کروایا۔
یوٹیوب نے بھی اسی وقت ’شورٹس‘ کے ذریعے اس دوڑ میں شامل ہو کر مختصر ویڈیوز کا فارمیٹ پیش کیا۔
ان ویڈیوز کو ورٹیکل ویڈیو فارمیٹ میں ڈیزائن کیا گیا ہے۔ ایک ویڈیو ختم ہوتے ہی دوسری ویڈیو سکرین پر نمودار ہو جاتی ہے اور صارف مسلسل ویڈیوز دیکھتا رہتا ہے۔
مختصر ویڈیوز کی یہ دنیا ہمیں ایک ایسی تفریح فراہم کرتی ہے جس میں بوریت کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آپ کسی بھی وقت، کسی بھی جگہ بوریت محسوس کر رہے ہوں، اپنا فون نکال لیں اور کسی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر مختصر دورانیے کی ویڈیوز دیکھنا شروع کر دیں۔ کچھ ہی دیر میں آپ ہنستے ہوئے دہرے ہو رہے ہوں گے۔
مختصر ویڈیوز کے اس عروج کی وجہ لوگوں کی بدلتی ہوئی عادات ہیں۔ انٹرنیٹ اور موبائل فونز ہماری توجہ کا دورانیہ کم سے کم کرتے جا رہے ہیں۔
ہمیں ہر سیکنڈ کے بعد اپنی سکرین پر ایک الگ منظر، ایک الگ کہانی چاہیے، وہ بھی کسی مشقت کے بغیر۔
کسی ویڈیو کو دیکھنے سے پہلے یا دیکھتے ہوئے اشتہارآئے یا فون افقی انداز میں پکڑنا پڑے، ہمیں ایسے لگتا ہے جیسے ہم سے اس ویڈیو کے عوض بہت کام کروایا جا رہا ہے۔ ہم فوراً وہ ویڈیو بند کر دیتے ہیں۔
مختصر ویڈیوز نے ہمارا یہ مسئلہ حل کر دیا ہے۔ 15 سے 60 سیکنڈ کی یہ ویڈیوز دیکھنے کے لیے نہ ہمیں موبائل افقی انداز میں پکڑنا پڑتا ہے، نہ اشتہار دیکھنے پڑتے ہیں۔
محققین کے مطابق صارفین کے مختصر دورانیے کی ویڈیوز دیکھنے کے سات محرکات ہو سکتے ہیں۔ ان میں ذاتی تشہیر، تفریح، فرار، مشاہدہ، نیا پن، دستاویز بندی اور رجحان شامل ہیں۔
اگرچہ ان میں سے بہت سے محرکات مثبت ہیں لیکن فرار کا محرک تشویش ناک ہے۔ مختصر ویڈیوز ہمیں ایک ایسی دنیا میں لے جاتی ہیں جہاں ہم اپنی حقیقی زندگی کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔
متعدد تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ جو لوگ اپنی زندگی سے کم مطمئن ہوتے ہیں، وہ اپنی حقیقی دنیا کی مشکلات سے بچنے کے لیے ایسی ویڈیوز دیکھتے ہیں۔
کچھ تحقیقات بتاتی ہیں کہ مختصر دورانیے کی ویڈیوز بنانے والے خود پسندی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ وہ ان ویڈیوز کو اپنی ذاتی تشہیر کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
ایسے افراد کا بنیادی مقصد اپنی برتری کو تسلیم کروانا ہوتا ہے۔
ریلز کی مختلف خصوصیات، جیسے بیوٹی کیمرے، فلٹرز اور ویڈیو ایڈیٹنگ کے آپشنز، انہیں اپنی مختصر ویڈیوز کو اپنی مرضی کے مطابق بنانے میں مدد فراہم کرتے ہیں جس سے وہ اپنی شخصیت کی تسکین حاصل کرتے ہیں۔
یہ ویڈیوز لوگوں پر ایک بہت بڑا سماجی دباؤ بھی ڈالتی ہیں۔ جب ہم اپنے کسی دوست کی ویڈیو دیکھتے ہیں تو اپنی زندگی کے بارے میں سوچنے لگتے ہیں۔ ہمیں وہ خواہ مخواہ بے رنگ لگنے لگتی ہے۔
ہم خود سے سوال کرتے ہیں: کیا میری زندگی دلچسپ نہیں ہے؟ پھر ہم بھی اپنی زندگی دلچسپ انداز میں انہیں دکھانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس دوڑ میں اپنی زندگی کو مزید پیچیدہ اور بے رنگ بنا لیتے ہیں۔
یہ ویڈیوز ہمیں جھوٹ اور بناوٹ پر مبنی دنیا کا عادی بنا رہی ہیں۔ ہم وہاں ہونے والی ہر چیز کو سچ سمجھ کر اس مصنوعی دنیا کے دباؤ میں اپنی حقیقی زندگی اور تعلقات کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں۔
یہ ویڈیوز ہماری ذہنی صحت پر بھی منفی اثر ڈال رہی ہیں۔ یہ ہمیں تنہائی، بے چینی، اداسی اور نرگسیت کا شکار بنا رہی ہیں۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہمارا سکون اور خوشی ان مختصر ویڈیوز میں نہیں بلکہ ہماری اصل دنیا کے تعلقات اور حقیقی لمحات میں پوشیدہ ہیں۔
یہ ویڈیوز وقتی طور پر ہمیں خوش کر سکتی ہیں لیکن ہم جب اپنا فون ایک طرف رکھتے ہیں تو ہمیں نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی اصل زندگی کے مسائل کی طرف لوٹنا پڑتا ہے، جو ویسے کے ویسے ہمارے سامنے موجود ہوتے ہیں۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے جو وقت اور توانائی درکار ہوتی ہے، وہ ہم ان ویڈیوز کو دیکھنے میں گزار چکے ہوتے ہیں۔
اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے: کیا آپ اپنا وقت ان ویڈیوز کو دیکھنے میں صرف کرنا چاہتے ہیں یا اپنی اصل زندگی کو بہتر اور خوش حال بنانے میں؟ سوچئے، کیونکہ وقت آپ کے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر بلاگر کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔