پاکستانی انگریزی لکھ سکتے ہیں، یہ ثابت کرنے والی بیپسی سدھوا چل بسیں

انڈین فلم ساز دیپا مہتا نے ان کے 1991 کے ناول ’آئس کینڈی مین‘ پر 1998 میں فلم ’ارتھ‘ بنائی اور ان کے دوسرے ناول ’واٹر‘ پر 2006 میں اسی نام سے فلم بنائی۔

بپسی سدھوا پولیو کا بچپن میں شکار ہوئیں اور باقاعدہ سکول نہ جاسکیں (تصویر: جے ایل ایف یو ایس اے)

’آئس کینڈی مین‘ اور ’جنگل والا صاحب‘ (کرو ایٹر) جیسے ناولوں کی وجہ سے عالمی شہرت پانے والی پاکستانی ناول نگار بیپسی سدھوا بدھ کو امریکہ کے شہر ہوسٹن میں وفات پا گئیں۔ وہ 86 برس کی تھیں۔

بیپسی سدھوا انگریزی میں پاکستانی ادب کی ممتاز شخصیت ہیں۔ وہ پہلی پاکستانی مصنفہ ہیں جن کی تصانیف مغرب میں شائع ہوئیں۔ انہوں نے پاکستانیوں کے انگریزی میں لکھنے کے خیال کو متعارف کروایا اور اس صلاحیت کو ثابت کیا۔ ایک خاتون ہونے کے ناطے ان کا یہ اعزاز مزید اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔

بیپسی ایک گجراتی پارسی خاندان میں 11 اگست 1938 کو لاہور، ہندوستان پیدا ہوئیں۔

وہ بچپن میں پولیو کا شکار ہو گئیں اور باقاعدہ سکول نہ جا سکیں لیکن اس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ انہیں پڑھنے کے لیے بہت زیادہ وقت ملا۔

’اورل ہسٹری پراجیکٹ‘ کے ساتھ اپنی زندگی کے بارے میں گفتگو میں ان کا کہنا تھا: ’میں نے لاہور میں پرائیویٹ میٹرک کیا اور 13 سال کی عمر میں مکمل کیا، جو کہ ایک غلطی تھی۔ میری تعلیم کا نظام بکھرا ہوا تھا، لیکن میری پرائیویٹ ٹیچر نے مجھے اپنی پسند کے مضامین پڑھنے کی اجازت دی۔ 11 سال کی عمر میں انہوں نے مجھے ’لٹل ویمن‘ دی، جس نے میری دنیا کو وسیع کر دیا۔‘

انہوں نے بتایا تھا: ’میری دنیا بہت محدود تھی، سکول نہ جانا، زیادہ رشتے دار نہ ہونا اور چند دوست، لیکن کتابوں نے مجھے انسانی تعلقات کے بارے میں سکھایا۔ میں نے اینڈ بلیٹن کی کتابیں اور کامکس پڑھیں اور پھر 13 سال کی عمر میں پی جی ووڈ ہاؤس پڑھنا شروع کیا، جو میرا پسندیدہ بن گیا۔‘

بیپسی ناولوں کی مصنفہ کیسے بنیں، اس پر حیرت ہوتی ہے کیونکہ ان کے والدین نے کبھی ناول نہیں پڑھا تھا۔

زندگی کے ابتدائی دنوں میں لاہور میں پرورش پانے کے بعد وہ اپنے شوہر کے ساتھ بمبئی منتقل ہو گئیں، جہاں بڑی پارسی برادری آباد ہے۔

اس نقل مکانی کے بارے میں ان کا کہنا تھا: ’یہ میرے لیے ایک دلکش تجربہ تھا، پہلی بار اپنی کمیونٹی میں شامل ہونا اور پارسیوں کو جاننا۔ میں نے وہاں جو کچھ سیکھا، وہ اپنی کتاب ’دی کاؤ ایٹرز‘ میں شامل کیا۔ میں نے محسوس کیا کہ ہم کتنی دلچسپ اور مزاح پسند کرنے والی کمیونٹی ہیں۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ انہوں نے شادی کے بعد قراقرم ہائی وے پر ہنی مون منایا تھا۔

اس سیر کی دعوت انہیں اس وقت میجر لیکن بعد میں جنرل بننے والے سا تھابٹ نے دی تھی۔ میجر سا تھابٹ ان دنوں قراقرم شاہراہ کی تعمیر میں ان دنوں مصروف تھے۔ انہوں نے انہیں ایک پنجابی لڑکی کی کہانی سنائی جو دریائے سندھ کے پار شادی کے لیے جا رہی تھی۔ ’ایک ماہ بعد ہمیں معلوم ہوا کہ وہ بھاگ گئی۔ میں نے لاہور واپس لوٹ کر اس کی کہانی لکھنے کا فیصلہ کیا اور قراقرم کے پہاڑوں اور دریائے سندھ کی خوبصورتی کو بیان کیا۔‘

اس تجربے سے جنم لینے والے ناول ’دی پاکستانی برائیڈ‘ میں قدرت بھی ایک کردار تھا۔ بیپسی نے بتایا: ’میں نے اس کہانی کو ناول میں تبدیل کیا اور مختلف کردار تخلیق کیے۔‘

ان کے پانچ ناول ’کریکنگ انڈیا‘، ’دی پاکستانی برائیڈ‘، ’دی کرو ایٹرز‘، ’این امریکن بریٹ‘ اور ’واٹر‘ کے کئی زبانوں میں ترجمے شائع ہو چکے ہیں۔ ان کی انتھولوجی ’سٹی آف سن اینڈ سپلنڈر: رائٹنگز آن لاہور‘ 2006 میں شائع ہوئی۔

انڈین فلم ساز دیپا مہتا نے 1991 کے ناول ’آئس کینڈی مین‘ پر 1998 میں فلم ’ارتھ‘ بنائی اور ان کے دوسرے ناول ’واٹر‘ پر 2006 میں اسی نام سے فلم بنائی۔

پاکستان میں ان کی موت پر شدید دکھ کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

بیپسی کی بچپن کی کچھ تکلیف دہ یادیں بھی ہیں، جنہیں انہوں نے ’آئس کینڈی مین‘ میں بیان کیا ہے۔ انہوں نے لکھا: ’تقسیم سے پہلے لاہور کا ماحول بدل گیا تھا اور ہمیں اپنے گھر میں چند لوگوں کو پناہ دینی پڑی۔ تقسیم کے بعد ہمارے دوست اور پڑوسی چلے گئے اور ماحول کشیدہ ہوگیا۔‘ یہ واقعات ان کی تحریروں کا حصہ بنے اور انہوں نے اپنے والدین کو مختلف کرداروں میں استعمال کیا۔

مشہور شاعر فیض احمد فیض کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ انہوں نے ان کا ناول اپنے بھائی کو دکھایا اور کہا: ’یہ ایک پارسی خاتون نے لکھا ہے، کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ یہ کون ہے؟ میرے بھائی نے کتاب کھولی، تھوڑا سا پڑھا اور کہا میرا خیال ہے کہ یہ میری بہن نے لکھی ہے۔

’پھر دونوں میرے گھر، گلبرگ آئے۔ اس وقت میں گلبرگ مارکیٹ میں رہتی تھی۔ اس وقت صرف ایک ایئر کنڈیشنر تھا، جو بیڈروم میں تھا تو فیض صاحب وہاں بیٹھ گئے۔ انہوں نے کہا: یہ بہت اچھی کتاب ہے۔۔۔ لیکن یہ دوسری درجے کی ہے۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فیض سے گفتگو یاد کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’آپ کی کتاب نارائن اور نائپال کی طرح اچھی ہے۔۔۔انہوں نے اور بہت سے نام بھی لیے۔ میں نے فیض سے کہا یہ گستاخی ہے، یہ بہت بڑے مصنفین ہیں۔ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ نہیں نہیں، آپ کی کتاب بھی اتنی ہی اچھی ہے۔‘

میں نے کہا: ’بہت شکریہ، مجھے دوسرے درجے میں رکھنا بھی ایک اعزاز ہے۔‘

پھر دونوں دوست بن گئے۔ بعد میں بیپسی روس گئیں جہاں ان کی ان سے ملاقات ہوئی۔ ان واقعات کے بارے میں وہ کہتی ہیں کہ ’یہ میری زندگی کے یادگار لمحات تھے۔‘

اپنے بہت سے اعزازات میں بیپسی سدھوا کو ریڈکلف/ہارورڈ میں بنٹنگ فیلوشپ، لیلا والیس-ریڈرز ڈائجسٹ رائٹر ایوارڈ، ستارہ امتیاز، فنون میں پاکستان کا سب سے بڑا اعزاز اور جرمنی میں لیبرچرپریس اور 2007 کا پریمو مونڈیلو میں ایوارڈ ملا۔

بیپسی کو ان کی تخلیقی تحریروں کی وجہ سے لمبے عرصے تک یاد رکھا جائے گا۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین