لیونارڈو ڈاونچی
کیا لیونارڈو ڈاونچی جیسا عظیم مصور آنکھوں کے مسائل کا شکار تھا؟
جی ہاں اسے آنکھوں کی مختلف بیماریاں تھیں۔
ڈاونچی کے بارے میں ہونے والی تازہ ترین تحقیق ہمیں یہی بتاتی ہے۔
لیونارڈو ڈاونچی کی مختلف تصاویر، مجسمے اور ڈرائنگز کا بغور جائزہ لیے جانے کے بعد یہ راز کھلا ہے کہ غالباً انہیں بھینگے پن کی بیماری تھی۔
تحقیق کرنے والوں کے نزدیک ڈاونچی کو بھینگے پن کی بیماری اس قسم کی تھی جس میں ایک یا دونوں آنکھوں کی پتلیاں باہر کی طرف پھیل جاتی ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق یہ بیماری عموماً دو سو میں سے ایک انسان کو ہوتی ہے۔
تحقیق کنندگان قیاس کرتے ہیں کہ اس بیماری نے اسے دونوں آنکھوں سے الگ الگ دیکھنے میں مدد دی ہو گی۔ ڈاونچی شاید کینوس کو عام آدمی کی نسبت زیادہ قریب سے اور مرتکز ہو کر دیکھ سکتے ہوں گے۔
پروفیسر کرسٹوفر ٹیلر کی رائے میں یہ بتانا مشکل ہے کہ ڈاونچی کی کس آنکھ میں مسئلہ تھا، لیکن اس کی تصویروں میں جومیٹریکل عناصر معجزاتی حد تک درست دیکھ کر یہ گمان کرنا ممکن ہے کہ اس کی نزدیک سے دیکھنے کی صلاحیت عام انسانوں کے برعکس ایک آنکھ پر مبنی تھی۔ وہی آنکھ جو عام صورت حال میں پینٹنگ کرنے کے لیے وہ استعمال کرتا تھا۔
طبی تحقیق کے رسالے ‘جاما اوفتھامالوجی’ میں شائع شدہ ڈاکٹر کرسٹوفر ٹیلر کی تحقیق میں ڈاونچی کے ان شہ پاروں کا جائزہ بھی لیا گیا تھا جو اس نے نوجوانی کے دور میں بنائے تھے۔ ان میں لیونارڈو ڈاونچی کا مشہور مجسمہ ڈیوڈ اور اس کی مشہور ڈرائنگ vitruvian man بھی شامل تھی۔
جوانی کے دور میں بنائی گئی تصاویر اور مجسمے ہوں یا نسبتاً آخری عمر میں بنائے گئے ڈاونچی کے شہ پارے ہوں، ان سب کے اندر ماہرین نے آنکھوں کا یہ ٹیڑھا پن نوٹ کیا ہے۔ ڈاونچی کی آنکھ میں یہ خرابی منفی 10.3 درجے کی تھی جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ اس کی آنکھ باہر کی جانب پھری ہوئی ہوں گی۔
طبی جریدے جامع اوفتھامولوجی میں چھپی اس تحقیق کے مطابق لیونارڈو ڈاونچی ایکزوٹوپیا نامی آنکھوں کی بیماری میں مبتلا تھے۔ اس بیماری کی وجہ سے وہ ہموار سطح (مثلاً کینوس) پر اشیاء کے فاصلے اور گہرائی کی تصویر کشی دوسرے لوگوں کی نسبت بہتر طریقے سے کر سکتے تھے۔ اس بیماری میں ایک آنکھ کی پتلی اپنے بصری محور سے باہر نکل جاتی ہے۔
اس تحقیق میں یہ بات بھی واضح کی گئی ہے کہ اس بیماری کی وجہ سے لیونارڈو ڈاونچی دنیا کو عام آدمیوں کی نسبت ایک الگ نظر سے دیکھا کرتا تھا۔ اسے تھری ڈائمینشنل سطح کی جگہ سامنے کا منظر دو سطحی نظر آتا تھا جس کی وجہ سے وہ با آسانی منفرد تصاویر بنا کر لیتا تھا۔
جرمین ڈیگاس
1860 سے 1910 کے درمیان مسلسل کمزور ہوتی ہوئی بنائی کی وجہ سے ڈیگاس کی بنائی گئی تصویریں آہستہ آہستہ بھدی ہوتی جا رہی تھیں۔ 2006 میں ایک تحقیق کے دوران ڈاکٹر مارمور نے دریافت کیا کہ ڈیگاس کی نگاہ اس کی زندگی کے آخری برسوں میں بتدریج کمزور ہو رہی تھی۔
جیسے جیسے اس کی آنکھیں کمزور ہو رہی تھی ویسے ویسے اس کی بنائی گئی تصویروں میں پہلے جیسی باریکی بھی نظر آنا کم ہوتی جا رہی تھی، اس کے سٹروکس بھدے، بے ڈول اور موٹے ہو چکے تھے۔ ڈاکٹر مارمور کے خیال میں آخری برسوں کے دوران ڈیگاس کا مکمل کیا گیا کام عام آدمی کی نسبت اسے خود زیادہ نیچرل، باریک اور خوبصورت نظر آتا ہوگا۔
اس کی واحد وجہ آنکھوں کی خرابی تھی۔ کیوں کہ اگر وہ اپنی تصویروں میں کسی بھی عیب کو دیکھ پاتا یا عام آدمی جیسی تیز نگاہ اس کے پاس ہوتی تو شاید وہ تمام مسائل اس کی تصویروں میں کبھی پیدا ہی نہ ہوتے۔
آنکھوں کی اسی خرابی کی وجہ سے ڈیگاس کے بہت سے کام میں ایک عجیب سا اوپرا پن موجود ہے۔ پہلے اس کی کوئی توجیہہ دینا ممکن نہیں تھا لیکن اس تحقیق کے بعد آرٹ کے نقادوں کے پاس اس کی ممکنہ وجہ موجود ہے۔
ریمبراں
2004 میں ہاورڈ میڈیکل سکول کے نیورو سائنٹسٹ مارگریٹ لیونگ اسٹون اور بیول کانوے نے دریافت کیا کہ سترہویں صدی کے مشہور مصور ریمبراں کی آنکھیں اس کے سیلف پورٹریٹ (ریمبراں کی وہ تصویریں جن میں بطور ماڈل اس نے خود اپنے آپ کو پینٹ کیا تھا) میں اکثر توازن سے باہر دکھائی دیتی ہیں۔
یعنی ان میں کچھ حد تک بھینگا پن موجود تھا۔
غور کرنے پر یہ بھی دکھائی دیتا ہے کہ ریمبراں کی اکثر تصاویر میں اس کی ایک آنکھ تصویر دیکھنے والے کے چہرے کو دیکھ رہی ہے جب کہ دوسری آنکھ دور کہیں اور مرکوز ہے۔
مارگریٹ لیونگ اسٹون اور بیول کانوے، دونوں ڈاکٹروں کا یہ خیال تھا کہ ریمبراں نے اپنی تصویر بناتے وقت ظالمانہ تک بے رحمی سے کام لیا تھا۔ اگر وہ چاہتا تو اپنی تصویروں میں خود اپنے آپ کو ذرا بہتر انداز میں پیش کر سکتا تھا یا کم از کم آنکھوں کا بھینگا پن تو چھپا دینا ممکن رہا ہو گا۔ اگرچہ اس کی آنکھوں میں موجود یہ خرابی تصویریں بناتے وقت گہرائی اور سہ جہتی عناصر کو جانچنے میں اس کی مددگار رہتی ہوگی لیکن بہرحال دیکھنے والوں کے لئے مکمل طور پر یہ ایک عیب ہی ہے۔
کلاڈ مانے
کلاڈ مانے اپنی تحریروں میں کئی جگہ روز بروز کمزور ہوتی ہوئی اپنی نگاہ سے متعلق پریشانی اور مایوسی کا ذکر کرتے ہوئے نظر آتا ہے۔
1914 میں اپنی ایک تحریر میں کلاڈ مانے اس بات کا بھی ذکر کرتا ہے کہ “رنگ اب پہلی جیسی شدت کے حامل نظر نہیں آتے، سرخ اب کچھ مٹیالا سا لگتا ہے۔ میری تصویریں روزبروز گہرے شیڈز کی حامل ہوتی جا رہی ہیں۔”
1923 میں آنکھ کی سرجری سے گزرنے کے بعد مانے دوبارہ اس قابل ہوا کہ وہ اپنے اوریجنل سٹائل میں تصویریں بنا سکے۔ اس کے سوانحی حالات کا جائزہ لینے سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ 1923 میں آنکھوں کے آپریشن کے بعد پچھلے دس برسوں میں بنائی گئی زیادہ تر تصاویر اس نے ضائع کر دی تھیں۔
جارجیا او کیف
بیسویں صدی کی مشہور امریکی مصور جارجیا اوکیف پھولوں، جانوروں کے ڈھانچوں اور خوبصورت قدرتی مناظر کی لینڈ سکیپ پینٹنگ بنانے کے لیے مشہور تھی۔
وہ آنکھوں کی ایک ایسی بیماری کا شکار تھی جسے میکیولر ڈی جنریشن کہا جاتا ہے۔ اس بیماری میں اگر آپ سامنے دیکھیں تو آپ کو کچھ نظر نہیں آتا یا سب کچھ بہت دھندلا دکھائی دیتا ہے۔ او کیف نے بغیر کسی مدد کے اپنی آخری تصویر 1973 میں بنائی۔
بعد کے واقعات و حالات یہ گواہی دیتے ہیں کہ روز بروز کم ہوتی بینائی بھی اسے تصویریں بنانے سے روک نہیں سکی۔
جب اس کی نگاہ تقریبا ختم ہو گئی تب بھی جارجیا اوکیف اپنے مختلف اسسٹنٹس کے ساتھ تصویریں بناتی رہی اور یہ سب کام وہ اپنی یادداشت اور مضبوط چشم تصور کے بھروسے پہ کیا کرتی تھی۔
1977 میں 90سالہ جارجیا اوکیف کہتی تھی کہ “میں وہ کچھ اب بھی دیکھ سکتی ہوں جو میں بنانا چاہتی ہوں۔ کسی تخلیق کے لئے جو چیز ایک فنکار کو مدد دیتی ہے وہ اب بھی میرے پاس موجود ہے۔ میری تخلیقی صالاحیت ابھی تک ماند نہیں ہوئی۔”