شیڈو آف سمٹ: پاکستان کا سافٹ امیج دکھانے کی کوشش

اس سفرنامہ فلم کا بہترین شارٹ طویل انتظار کے بعد کے ٹو کی ایک مختصر جھلک تھی۔ لگتا تھا اتنے سارے مداحوں کے قریب آنے پر یہ پہاڑ مزید شرما گیا اور بادلوں میں چھپا رہا۔

ٹیک کمپنی کے سربراہ عثمان آصف (سفید کوٹ میں) اپنی ٹیم کے ساتھ اسلام آباد میں اپنی ڈاکومینٹری کی سکرینگ کے دوران گروپ فوٹو میں دیکھے جاسکتے ہیں (انڈپینڈنٹ اردو)

یہ عظیم ملک بدستور عظیم  تضادات کا شاہکار ہے۔ کہیں اس کے ناامید نوجوان اسے خیر باد کہنے کی کوشش کر رہے ہیں تو کہیں چند من چلے اسی ملک میں رہتے ہوئے نئی راہیں تلاش کر رہے ہیں۔

ایسی ہی ایک نوجوان شخصیت عثمان آصف سے گذشتہ دنوں اسلام آباد کے ایک مقامی سینیما ہال میں ملاقات ہوئی۔

انہوں نے گذشتہ اگست 20 افراد پر مبنی ایک دستہ بنا کر دنیا کے دوسرے سب سے اونچے پہاڑ کے ٹو کے بیس کیمپ کنکورڈیا کا سفر کیا۔

صرف یہ دلچسپ، کٹھن، یادگار، کئی دنوں کی واک پر مبنی سفر ہی نہیں کیا بلکہ آج کے جدید تقاضوں کے مطابق اس کی فور کے میں دستاویزی فلم بھی بنا ڈالی۔

عثمان ویسے تو ایک ٹیک کمپنی کے سربراہ ہیں لیکن انہیں اس ایکسپڈیشن کی کیسے سوجھی، اس کی وجہ وہ ملک میں انٹرینیورشپ کو فروغ دینے کی ضرورت کو بتاتے ہیں۔

اس سفر میں وہ 1300 درخواستوں میں سے منتخب کردہ بارہ نوجوان انٹرپرنیورز کو بھی لے کر گئے اور فلم میں اس اہم موضوع پر ان کی آپس میں گفتگو بھی دکھائی۔

ان کی ان کاوشوں کا مقصد ملک کا سافٹ امیج بھی دکھانا تھا۔

منتظمین کا کہنا ہے کہ اس بیس رکنی وفد کے قیام و طعام کا بڑا خرچہ کئی نجی پاکستانی کمپنیوں نے ساتھ اٹھایا تھا۔ 

ویسے تو ’جان لیوا حد تک خطرناک‘ کے ٹو کے بارے میں سینکڑوں سفرنامے ویڈیوز اور ڈاکومینٹریز کی شکل میں موجود ہیں لیکن یہ نئی فلم اپنے پیغام کی وجہ سے مختلف ہے۔

اس کو دیکھ کر لگا اور اس کے اختتام پر کنکورڈیا کے سرد موسم میں اپنے خطاب میں بھی عثمان نے واضح کر دیا کہ وہ اس ملک میں بڑا پوٹینشل دیکھتے ہیں بس حالات کے مسلسل اتار چڑھاؤ سے دل برداشتہ ہیں۔

ان سے وجہ ملاقات اسلام آباد میں اس سفری ڈاکیومینٹری کا پریمئیر تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ ملک چھوڑ کر جاننے والوں میں سے نہیں بلکہ یہیں رہ کر اسے ٹھیک کرنے والوں میں سے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اس سفر کی تیاری کے لیے انہوں نے کئی کلو وزن کم کیا لیکن وہاں پہنچنا پھر بھی مشکل تھا۔

انہیں امید تھی کہ ان کی اس کاوش کے نتیجے میں کئی لوگ بھی اس منفرد سفر کی نیت باندھیں گے، لیکن یہ کوئی آسان سفر نہیں، فلم دیکھ کر بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔

لاہور میں اس کا پریمئیر پہلے ہوچکا تھا لیکن سینٹورس مال کا سینیما ہال مدعو حاضرین سے بھرا پڑا تھا۔

مجھے بھی معلوم نہیں تھا کہ میرے ساتھ بغل میں بیٹھا نوجوان سکرینگ کے دوران انتہائی ہائپر کیوں تھا۔ فلم کے ختم ہوتے ہی اس نے برجستہ مجھ پر سوال داغ دیا: ’کیسی لگی ڈاکیومینٹری؟‘

میرے منہ سے بھی فی الْبَدِیہْہ ’امیزنگ‘ ہی نکل سکا۔ ان کا اگلا جملہ تھا ’میں بھی تھا اس میں۔‘

اس ڈاکیومینٹری کا نام ’دا سمٹ آف شیڈوز‘ انہوں نے کیوں رکھا، یہ پوچھنے کا موقع نہیں ملا۔

لیکن نہ سکرینگ سے قبل ابتدائیے میں اور نہ فلم میں اس کی وضاحت موجود تھی۔

تجسس نے مجھے خالہ گوگل سے مدد لینے پر اکسایا تو انہوں نے اس نام کی ایک کتاب میری سکرین پر سجا دی۔

ان کا کہنا ہے کہ ’سمٹ آف شیڈوز مصنف روکس کوڈز کی ایک کتاب ہے جو ایڈونچر اور جادو کی دنیا پر مبنی ہے۔

اس کی کہانی جنگجوؤں، جادوگروں، طبیبوں اور چوروں کے ایک گروپ کے گرد گھومتی ہے جنہیں ملک کو اندھیرے اور برائی سے بچانے کے لیے مل کر کام کرنا ہو گا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کتاب کے دو کرداروں میں ایک عظیم جنگجو ارلن اور ایک دانش مند جادوگر ایلورا شامل ہیں۔‘

مجھے نہیں معلوم فلم اور کتاب میں کوئی مماثلت ہے یا نہیں، لیکن ایک یکسانیت ضرور دکھائی دی اور وہ تھی اس کتاب کے لکھنے کا مقصد ٹیکنالوجی کی طاقت کو جانچنا۔

عثمان کا پس منظر بھی ٹیکنالوجی ہے تو شاید وہ اس کی بنیاد پر اپنی اور اپنے ساتھیوں کی طاقت اور حوصلہ جاننا چاہتے ہوں۔

اس سفر کے لیے دنیا بھر سے تین انفلوئنسرز درخواست کی بنیاد پر منتخب کیے گئے۔ انتخاب کا ایک معیار ان کی فالوونگ کا کم از کم پانچ لاکھ ہونا بھی ضروری تھا۔

ان میں سے دو کا تعلق برطانیہ اور اٹلی سے تھا۔  

ڈاکیومینٹری پاکستانی قومی بیانیے سے کافی قریب نظر آئی۔

مشکل، جتن سے بھرپور سفر، دلچسپ گفتگو کے ساتھ ساتھ اذان، نماز یعنی مذہب کو بھی انتہائی اہتمام کے ساتھ دکھایا گیا۔

تاہم اس سفرنامہ فلم کا بہترین شارٹ طویل انتظار کے بعد کے ٹو کی ایک مختصر جھلک تھی۔

لگتا تھا اتنے سارے مداحوں کے قریب آنے پر یہ پہاڑ مزید شرما گیا اور بادلوں میں چھپا رہا۔

موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں وزیراعظم کی رابطہ کار رومینہ خورشید عالم نے بھی سفرنامہ دیکھا حکومت کے حالات میں بہتری لانے کے پختہ عزم کا اعادہ کیا۔

تاہم ان کی ایک بات سے افسوس بھی ہوا کہ سال ہا سال سے پاکستان کی فلک شگاف پہاڑوں کو سر کرنے کے لیے بڑی تعداد میں دنیا بھر سے کوہ پیما آتے ہیں لیکن اب تک مناسب تربیت یافتہ پورٹرز ہم تیار نہیں کرسکے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں نیپال سے مدد لی جا رہی ہے۔ 

خیر اس ملک کی راہ نجات اسی میں ہے کہ تضادات کو کم کیا جائے۔ مثبت پہلو تبھی رنگ جما سکیں گے جب منفی پہلو ختم کر دیے جائیں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین