آج معلوم ہوا انٹرنیٹ کی بندش غلط ہوتی ہے: چیئرمین پی ٹی اے

چیئرمین پی ٹی اے نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتایا ہے کہ ’مجھے معلوم نہیں تھا کہ قانون میں ایسی کوئی شق نہیں جس میں انٹرنیٹ کی بندش کا کہا گیا ہو۔‘

چیئرمین پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی حفیظ الرحمن یکم جنوری 2025 کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو انٹرنیٹ کے حوالے سے بریفنگ دی (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی نے بدھ کو انٹرنیٹ کی بندش سے متعلق معاملے پر وزارت قانون و انفارمیشن ٹیکنالوجی کو طلب کرتے ہوئے ملک میں انٹرنیٹ میں خلل سے متعلق تفصیلات اور وجوہات مانگ لی ہیں۔

چیئر پرسن سینیٹر پلوشہ خان کی زیر صدارت ایوان بالا کی کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اجلاس میں ملک میں انٹرنیٹ کی بندش سے متعلق معاملہ زیر غور آیا۔

سینیٹر منظور کاکڑ نے کہا کہ صوبہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں آئے روز انٹرنیٹ کا مسئلہ رہتا ہے۔

چیئر پرسن کمیٹی نے سوال کیا کہ کیا بلوچستان کے تمام علاقے انٹرنیٹ کی بندش سے متاثر ہیں؟ جس پر سینیٹر ہمایوں مہمند نے کہا ’سکیورٹی خدشات کے پیش نظر کوئی اور راستہ نہیں نکل سکتا؟‘

چیئرمین پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی حفیظ الرحمن نے کہا کہ بلوچستان میں فائبر کنکٹیویٹی کا بھی مسئلہ درپیش ہے جبکہ سینیٹر منظور کاکڑ نے کہا کہ ’ہم ٹاورز کے لیے درخواست دے کر تھک گئے۔‘

سیکریٹری آئی ٹی نے کہا کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم اضلاع میں کنکٹیویٹی کے لیے تین ارب روپے خرچ کیے گئے۔ ’گذشتہ تین ماہ میں حکومت نے صوبہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں انٹرنیٹ سے متعلق معاملات میں intervene/مداخلت کیا۔‘

سیکریٹری آئی ٹی نے کہا کہ انٹرنیٹ کی بندش پر ’غلط اعداد و شمار‘ دیے گئے اور کہا گیا کہ اس کی بندش سے ایک ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ ’ہم نے فوری طور پر پاشا کے نمائندوں کو طلب کیا، ان کی جانب سے دیے گئے اعداد و شمار چونکا دینے والے ہیں، اتنا نقصان نہیں ہوا جتنا بتایا گیا۔‘

اجلاس کے دوران چیئرمین پی ٹی اے انٹرنیٹ سروس میں خلل سے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ پی ٹی اے سماجی رابطے کی ویب سائٹس کے مواد کو بلاک کرنے کی درخواست کرتا ہے جس کے بعد ویب سائٹس 80 فیصد مواد بلاک کرتی ہیں۔

جمعیت علمائے اسلام کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے سوال کیا کہ ’قانون میں انٹرنیٹ بلاک کرنے کا نہیں لکھا تو اسے کیسے بلاک کیا جا سکتا ہے؟ کسی علاقے میں انٹرنیٹ کی بندش کا قانون میں کہاں کہا گیا ہے؟‘

ممبر وزارت آئی ٹی نے کہا کہ ایکٹ میں واضح طور پر کسی خاص علاقے میں انٹرنیٹ بندش کا نہیں لکھا ہوا۔

اس دوران چیئرمین پی ٹی اے نے کہا ’قوانین کے مطابق وزارت داخلہ پی ٹی اے کو اس حوالے سے ہدایت دے سکتی ہے، اگر یہ غلط ہے تو حکومت آٹھ سال سے ہم سے انٹرنیٹ کیوں بند کروا رہی ہے؟ انٹرنیٹ اور سماجی رابطے کی ویب سائٹس سپریم کورٹ کے حکم کے تحت سال 2016 سے بند کی جا رہی ہیں۔‘

چیئرمین پی ٹی اے نے کہا کہ تب سے وزارت داخلہ کے خط پر انٹرنیٹ بنا کیا جاتا ہے۔ ’میرے آنے سے قبل یہ پریکٹس چلتی رہی ہے، آج پہلی مرتبہ معلوم ہوا کہ انٹرنیٹ کی بندش غلط ہوتی ہے، مجھے معلوم نہیں تھا کہ قانون میں ایسی کوئی شق نہیں جس میں انٹرنیٹ کی بندش کا کہا گیا ہو۔ کیا جنرل الیکشن کے روز بھی نیٹ کی بندش غلط تھی؟ اس حوالے سے حتمی قانونی رائے وزارت قانون اور وزارت داخلہ دے سکتی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چیئرمین پی ٹی اے حفیظ الرحمن نے مزید کہا کہ ’وی پی این کی بندش سے متعلق معاملے پر ان کے ادارے نے سٹینڈ لیا اور وی پی این بند نہیں ہونے دیے۔ وی پی این سروس پروائیڈرز کی رجسٹریشن کا عمل 19 دسمبر کو شروع کیا گیا اور تاحال دو نے لائسنس کی درخواست دی ہے۔‘

’ملک میں سات سب میرین آ رہی ہیں، جب کیبل بچھتی ہے اسے تین جگہوں پر بچھایا جاتا ہے، کیبل کا ایک حصہ شہر، دوسرا ساحل اور تیسرا سمندر میں بچھایا جاتا ہے۔‘

بعد ازاں کمیٹی نے وزارت قانون و انفارمیشن ٹیکنالوجی کو انٹرنیٹ کی بندش سے متعلق قوانین پر طلب کر لیا، اور کمیٹی نے ملک بھر میں انٹرنیٹ میں خلل سے متعلق تفصیلات و وجوہات طلب کیں۔

’سال 2016 سے اب تک 100 مرتبہ انٹرنیٹ بند کیا ہوگا، کسی نے اسے چیلنج کیوں نہیں کیا؟‘

اجلاس کے بعد چیئرمین پی ٹی اے نے انڈپینڈنٹ اردو کے سوال سپریم کورٹ کی جانب سے کب انٹرنیٹ کی بندش سے متعلق حکم دیا گیا؟ پر جواب دیا کہ ’سپریم کورٹ، سندھ ہائی کورٹ، پشاور اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ یوٹیوب کو بند کرنے کا کہا تھا۔‘

اس پر جب انڈپینڈنٹ اردو نے ان سے پوچھا کہ اگر اسے درست مان لیا جائے تو کیا یہ حکم صرف یوٹیوب تک قابل عمل ہوگا یا پھر ایکس اور دیگر ویب سائیٹس پر بھی؟

جواب میں چیئرمین پی ٹی اے نے کہا کہ ’نہیں اس پر نہیں ہوگا، جس طرح اس وقت ایکس بلاک ہے، ان کے پاس ایسا کرنے کے لیے کوئی قانونی وجہ ہوگی۔ 2016 سے اب تک 100 مرتبہ انٹرنیٹ بند کیا ہوگا، کسی نے اسے چیلنج کیوں نہیں کیا؟‘

ایک اور سوال کہ اسلام آباد ہائی کورٹ انٹرنیٹ کی بندش کو غیرقانونی قرار دے چکی ہے؟ پر چیئرمین پی ٹی اے نے کہا کہ حکم نامے کو مکمل پڑھنا ہوگا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پی ٹی اے نے گذشتہ ماہ دسمبر میں ٹیلی کام کمپنیوں اور سماجی رابطے کی ویب سائٹس کو انٹرنیٹ میں خلل سے متعلق وجوہات جاننے کے لیے خط لکھا ہے، ان کی جانب سے جوابات بھی موصول ہو رہے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان