وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی شزا فاطمہ نے بدھ کو کہا ہے کہ حکومت کو انٹرنیٹ بند کرنے کا کوئی شوق ہے، نہ فائدہ لیکن قومی سلامتی سے آگے کچھ نہیں ہے۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں سوالات کے جوابات دیتے ہوئے وزیر مملکت کا کہنا تھا کہ جیسے جیسے سکیورٹی معاملات آئی ٹی کی جانب شفٹ ہوں گے، ہمیں سائبر سکیورٹی بہتر کرنی پڑے گی، ہم نے خود کو سائبر حملے اور ڈیٹا لیکس سے بچانے کے لیے اقدامات اٹھانے ہیں۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’انٹرنیٹ صارفین کو پیش آنے والی مشکلات پر ذاتی طور پر معذرت خواہ ہوں۔‘
گذشتہ چند ماہ سے پاکستان میں انٹرنیٹ کی رفتار سست روی کا شکار ہے، جس سے تمام شعبہ ہائے زندگی سے منسلک شہری مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔
انٹرنیٹ کی رفتار متاثر ہونے کی وجوہات پر وفاقی حکومت لاعلمی کا اظہار کرتی دکھائی دیتی ہے جب کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے 19 نومبر کو کہا تھا کہ اس وقت ’ملک بھر میں انٹرنیٹ بغیر کسی خلل کے چل رہا ہے۔‘
اسی معاملے پر وزیر مملکت شزا فاطمہ نے آج قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا: ’اس بات سے انکار نہیں ہے کہ گذشتہ چند ماہ سے انٹرنیٹ صارفین کو چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ہے، تاہم کچھ حقیقتیں ہیں، جن کا سامنا کرنا ضروری ہے۔
’پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی آٹی اے) ملک میں انٹرنیٹ کی کوالٹی کی ذمہ دار ہے، انہوں نے ایک رپورٹ جاری کی ہے کہ گذشتہ برس کے مقابلے میں رواں برس پاکستان کی انٹرنیٹ کی رفتار میں تکنیکی بنیادوں پر اوسطاً 28 فیصد بہتری آئی ہے اور موبائل انٹرنیٹ کے استعمال میں 24 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
’مالی سال کے پہلے پانچ ماہ میں انٹرنیٹ آئی ٹی برآمدات کی سال در سال بہتری 33 فی صد ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’صارفین کو پیش آنے والی مشکلات سے انکار نہیں ہے، مختلف وجوہات کی وجہ سے ہمیں یقیناً چیلنجز کا سامنا ہے، کہیں انٹرنیٹ کی سست رفتاری کا سامنا ہے تو کہیں سپیکٹرم کی دستیابی کے چیلنجز ہیں، ہمارے ملک کے اندر فائبرائی زیشن دو فیصد سے کم ہے۔‘
’ہمارا ایک نکاتی ایجنڈا ہے، جو اس ملک کی آئی ٹی کو سپورٹ کرنا اور اس سے متعلق مواقع پیدا کرنا ہے، اس پر کبھی ہم نے سمجھوتہ کیا ہے، نہ کریں گے۔‘
وزیر مملکت برائے آئی ٹی نے ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’اس ملک میں یوم عاشورہ آتا تھا تو پورے ملک میں انٹرنیٹ تو کیا، موبائل سروس بھی معطل ہوتی تھی، مگر ہم نے تمام صوبوں کی وزارت داخلہ سے ہاٹ سپاٹس کا تعین کروایا اور ان شہروں میں اُن مقامات کو ٹارگٹ کر کے انٹرنیٹ کو کنٹرول کیا تاکہ باقی پورے ملک کو نقصان نہ پہنچے۔ آج سے پہلے یہ نہیں ہوا۔
’ہماری پوری کوشش ہے کہ ٹیکنالوجی کو استعمال کریں اور بڑے پیمانے پر انٹرنیٹ بند نہ کریں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جیسے جیسے سکیورٹی معاملات آئی ٹی کی جانب شفٹ ہوں گے ہمیں سائبر سکیورٹی بہتر کرنی پڑے گی، ہم نے خود کو سائبر حملوں اور ڈیٹا لیکس سے بچانا ہے، دشمن ممالک سے خود کو محفوظ بنانے کے اقدامات اٹھانے ہیں، قومی سلامتی سے آگے کچھ نہیں ہے۔
’ہم نے تمام پہلوؤں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ایسا نظام وضع کرنا ہے، جس میں شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔ ہمیں انٹرنیٹ بند کرنے کا کوئی شوق ہے، نہ ہی اس سے کوئی خوشی ملتی ہے، نہ ہی میرے پاس کوئی بٹن ہے جس سے انٹرنیٹ بند کرتی ہوں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وزیر مملکت نے کہا کہ ’اس ملک میں منظم کرنے کے طریقہ کار ہیں، اگر سکیورٹی کے معاملے پر تحفظات سامنے آتے ہیں تو انہیں پی ٹی اے کو بھجوایا جاتا ہے۔ ہم یہ کوشش ضرور کرتے ہیں کہ ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے صارفین کو کم سے کم سطح پر تکلیف پہنچے۔ میں اس کے لیے معذرت خواہ ہوں جہاں جہاں پر صارفین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘
انہوں نے ایوان کو بتایا کہ ’پورے پاکستان کا انٹرنیٹ 274 میگا ہرٹس کے سپیکٹرم پر چلتا ہے، مگر گذشتہ چھ ماہ میں وزیراعظم، وزیر قانون اور اٹارنی جنرل نے ہمیں قانون سازی کے ذریعے 550 میگا ہرٹس کلیئر کروا کے دیا ہے۔
’ہماری کوشش ہے کہ اپریل میں سپیکٹرم آکشن کریں کیونکہ دستیاب سپیکٹرم ہماری آبادی کے لیے کم ہے، کوشش ہے کہ خطے میں پاکستان کو آئی ٹی کے اعتبار سے 10 بہترین ممالک میں لے کر جائیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’پاکستان میں زیر سمندر سات انٹرنیٹ کیبلز آتی ہیں، ہماری کوشش ہے کہ آئندہ دو برسوں میں چار مزید کیبلز پاکستان میں آئیں، جس سے انٹرنیٹ بہتر ہو۔‘
شزا فاطمہ کا کہنا تھا کہ ’گذشتہ چار پانچ برسوں میں ہم دیوالیہ ہونے کے دہانے پر تھے اور ہماری برآمدات بند تھیں، ٹیلی کام انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری نہیں ہو پائی، کوئی ٹاور برآمد نہیں کیا گیا، اس وجہ سے آبادی کے مقابلے میں ٹاورز کم ہیں۔ سو ہم مجموعی طور پر آئی ٹی سیکٹر میں زیادہ سرمایہ کاری لانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’ہر ایک کے لیے سمارٹ فون کی پالیسی کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔‘