سوشل میڈیا پر پاکستانی سٹار کرکٹر بابر اعظم اور حالات حاضرہ کے پروگرام آف دی ریکارڈ کے میزبان کاشف عباسی کی ڈیپ فیک ویڈیوز مخصوص موبائل اپلیکیشنز کی تشہیر کے لیے استعمال ہو رہی ہیں جو کاشف عباسی کے بقول ان کی مرضی کے خلاف استعمال کی جا رہی ہیں۔
مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس) یا اے آئی میں وقت کے ساتھ ساتھ جدت آ رہی ہے، لیکن اس کے اچھے استعمال کے ساتھ ساتھ منفی استعمال بھی عام ہوتا جا رہا ہے اور دنیا بھر کی طرح پاکستان میں معروف شخصیات ڈیپ فیک ویڈیوز کا شکار ہو رہی ہیں۔
حالیہ دنوں میں کئی ایسی ویڈیوز سامنے آئی ہیں، جن میں کچھ موبائل ایپلی کیشنز نے، جن کے ذریعے پیسوں کا لین دین ہوتا ہے، اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر معروف پاکستانی شخصیات کی شکل اور ان کی آواز کو ڈیپ فیک اور مصنوعی ذہانت کی مدد سے اپنی تشہیر کے لیے استعمال کیا۔
پاکستان ٹیم کے سابق کپتان بابر اعظم، اینکر پرسن کاشف عباسی اور دیگر معروف شیخصیات کی ڈیپ فیک ویڈیوز اس وقت سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔
ایک ویڈیو میں کاشف عباسی کا چہرہ اور آواز استعمال کر کے ایک موبائل ایپ کی تشہیر کی گئی، جس میں وہ بظاہر کہتے نظر آئے: ’یہ وہی موبائل ایپلی کیشن ہے جس سے اسلام آباد کے شہری نے 1.5 ارب کا جیک پاٹ جیت لیا۔‘
انڈپینڈنٹ اردو نے جب اس معاملے پر ردعمل کے لیے کاشف عباسی سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا: ’مجھے نہیں معلوم کہ کون یہ کر رہا ہے اور اس کا کیا کرنا چاہیے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ایسا کرنا غیر قانونی ہے اور کل کو یہ مزید غیر قانونی کاموں کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔‘
کاشف عباسی نے بتایا کہ انہیں معلوم نہیں تھا ان کی ایسی ویڈیوز بنائی جا رہی ہیں اور اب تک انہوں نے ایف آئی اے کو کارروائی کے لیے درخواست نہیں دی تھی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ’اب میں ایسی ویڈیوز کے خلاف قانونی کارروائی کے لیے ایف آئی اے کو درخواست دوں گا۔
ایک اور ویڈیو میں بابر اعظم کے چہرے اور آواز کو استعمال کیا گیا، جس میں وہ بظاہر ایک موبائل ایپلی کیشن کے ذریعے لوگوں کو پیسے کی سرمایہ کاری کی ترغیب دے رہے ہیں۔
بابر اعظم سے اس معاملے پر بات کرنے کے لیے رابطے کی کوشش کی مگر ان کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
دیگر معروف شخصیات کی بھی اس طرح کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کچھ عرصہ قبل پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری کی بھی ایک ڈیپ فیک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی، جس کے خلاف انہوں نے عدالت سے رجوع کیا۔
صرف پاکستان ہی نہیں دنیا کی کئی معروف شخصیات ڈیپ فیک ویڈیوز کا شکار ہو چکی ہیں جن میں سابق انڈین کرکٹر سچن ٹنڈولکر، بالی وڈ سٹار رنویر سنگھ، عامر خان اور رشمیکا مندانا شامل ہیں۔
امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور موجودہ صدر جو بائیڈن کی بھی ڈیپ فیک ویڈیوز بن چکی ہیں۔
ڈیپ فیک ویڈیوز کے خلاف کارروائی کیسے ممکن؟
جہاں یہ تاثر عام ہے کہ مصنوعی ذہانت کے استعمال کے بعد دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی سائبر کرائم میں اضافہ ہوا ہوگا مگر پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر محمود علی کھوکر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’مصنوعی ذہانت کے استعمال کے اضافے کے بعد بھی درخواستوں کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوا اور ان کی تعداد پہلے جیسی ہی ہے۔‘
محمود کھوکھر کے مطابق: ’مختلف سافٹ ویئرز موجود ہیں جو ویڈیو موشن پر آواز کا اوورلے (ڈبنگ) استعمال کرتے ہیں۔۔۔ خاص طور پر ایسے سافٹ ویئرز دستیاب ہیں، جو انٹرنیٹ پر موجود کسی شخص کی آواز کے نمونوں کی بنیاد پر ویسی ہی آواز بنا دیتے ہیں۔‘
پاکستان میں ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کے پاس اس طرح کے معاملات کی شکایات درج کروائی جا سکتی ہیں.
محمود کھوکر کا کہنا تھا کہ ’کسی رپورٹ کی صورت میں ایف آئی اے کسی بھی شخص کا روپ دھارے جانے کے معاملے (ڈیپ فیک) کا نوٹس لیتا ہے۔‘
ڈیپ فیک ویڈیو کیا ہے؟
مانچسٹر انسی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی آٹی) کی ایک رپورٹ کے مطابق ڈیپ فیک ایک مخصوص قسم کے مصنوعی میڈیا کو کہا جاتا ہے، جس میں کسی تصویر یا ویڈیو میں موجود شخص کی جگہ کسی دوسرے شخص کی شکل و صورت کو تبدیل کیا جاتا ہے۔
’ڈیپ فیک‘ کی اصطلاح پہلی بار 2017 کے آخر میں آن لائن خبریں اور مواد شیئر کرنے والی سائٹ ’ریڈ اِٹ‘ پر ایک صارف نے استعمال کی تھی۔
تب سے یہ اصطلاح وسیع ہو گئی اور اب اس میں ’مصنوعی میڈیا ایپلی کیشنز‘ بھی شامل ہیں جو ریڈ اِٹ سے پہلے موجود تھیں۔
نئی تخلیقات میں لوگوں کی حقیقت کے قریب نظر آنے والی تصاویر شامل ہیں، جو حقیقت میں وجود نہیں رکھتیں۔
حالیہ مثالوں میں ڈیپ فیک ایسی آواز ہو سکتی ہے جو فون پر آپ کے باس کی طرح لگتی ہے یا فیس بک کے مارک زکربرگ کی ایڈٹ شدہ ویڈیو، جس میں وہ دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں کہ اربوں لوگوں کا ڈیٹا رکھنا کتنا فائدہ مند ہے یا بیلجیم کے وزیراعظم کی ایک ریکارڈ شدہ تقریر جس میں کرونا وائرس کی وبا کو موسمیاتی تبدیلی سے جوڑا گیا تھا۔
ڈیپ فیک کے معاملات پر نظر رکھنے والی کمپنی ’ڈیپ ٹریس‘ کے ہیڈ آف تھریٹس انٹیلی جنس ہینری ایجڈر کے مطابق: ’اس اصطلاح کا منفی تاثر سمجھ میں آتا ہے، لیکن کاروباروں کے لیے اس کے کئی ممکنہ فائدہ مند استعمال بھی ہو سکتے ہیں، خاص طور پر مارکیٹنگ اور اشتہارات میں، جہاں معروف برانڈز پہلے ہی اسے استعمال کر رہے ہیں۔‘
ایجڈر کا مزید کہنا تھا: ’اسی وجہ سے اس شعبے میں بڑھتی ہوئی تعداد میں لوگ ’ڈیپ فیک‘ کی بجائے ’مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ میڈیا‘ کی اصطلاح استعمال کر رہے ہیں۔‘
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے استعمال میں اضافے کے بعد بھی سائبر کرائم کی شکایات میں اضافہ نہیں ہوا۔