خیبر پختونخوا کے ضلع لکی مروت میں پولیس نے جمعرات کو بتایا ہے کہ قبول خیل یورینیم مائن کے اغوا کیے گئے 16 ملازمین میں سے آٹھ کو بازیاب کروا لیا گیا ہے جبکہ دیگر کی بازیابی کے لیے آپریشن جاری ہے۔
لکی مروت پولیس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ملازمین لکی مروت کے علاقے قبول خیل میں جوہری توانائی منصوبے میں کام کرتے ہیں۔
عہدیدار کے مطابق: ’ملازمین نجی کوچ میں سوار تھے جب نامعلوم مسلح افراد نے ان کو گاڑی سے اتار گاڑی کو آگ لگا دی اور ملازمین کو اغوا کر لیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’قبول خیل میں یورینیم نکلتی ہے، جہاں پر قبول جوہری توانائی کمیشن کا منصوبہ ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عہدیدار کے مطابق: ’ملازمین کو اغوا کرنے کے بعد اغوا کار ان کو لکی مروت سے متصل پنجاب کے شہر میانوالی کے قریب جنگلات کی طرف لے گئے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’ملازمین کی بازیابی کے لیے پولیس اور آرمی نے مشترکہ اپریشن شروع کر رکھا ہے۔‘
تاحال کسی نے اغوا کی ذمہ داری قبول نہیں کی تاہم گذشتہ ہفتے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ تھا وہ پاکستان فوج کے اقتصادی اداروں کو بھی ہدف بنائیں گے۔
قبول خیل یورینیم کی کان 1986 میں دریافت ہوئی تھی، جہاں مختلف تجربات کے بعد 1995 میں کان کنی کا آغاز کیا گیا۔
لکی مروت میں گذشتہ کچھ عرصے سے امن و امان کی صورت حال خراب ہے جہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں پر حملے معمول بن گئے ہیں۔
لکی مروت پولیس نے کچھ عرصہ قبل ضلع میں امن و امان کی مخدوش صورت حال پر دھرنا بھی دیا تھا اور حکومت سے حالات قبول کرنے کی اپیل کی تھی۔
خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع ابتدا ہی سے شدت پسندی سے متاثر رہے ہیں، جن میں سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع میں شمالی و جنوبی وزیرستان شامل ہیں، تاہم ان اضلاع سمیت لکی مروت اور بنوں بھی ماضی میں شدت پسند گروپوں کا گڑھ رہا ہے۔
لکی مروت میں 2010 میں سب سے بڑا حملہ آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں موجود ہے، جب لکی مروت کے ایک والی بال گراؤنڈ میں دھماکہ ہوا تھا، جس میں 140 سے زائد افراد جان سے چلے گئے تھے۔
جس علاقے میں یہ واقعہ ہوا تھا، اسے اب ’بیواؤں کی بستی‘ کہا جاتا ہے کیونکہ اس گاؤں کے گھروں میں تقریباً تمام مرد اس دھماکے میں جان سے چلے گئے تھے۔
لکی مروت میں مولوی ٹیپو گل کا شدت پسند گروپ بہت سرگرم ہے۔
سینیئر صحافی و تجزیہ کار رفعت اللہ اورکزئی کے مطابق لکی مروت میں شدت پسند کارروائیوں کی ایک وجہ اس گروپ کا تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ 2022 میں الحاق ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ٹیپو گل کے تین شدت پسند گروپ تھے اور تینوں نے ٹی ٹی پی کے ساتھ الحاق کر رکھا ہے۔ ایک دوسرا گروپ اختر گل محسود کا بھی ہے، جس نے ٹی ٹی پی کے ساتھ الحاق کیا ہے۔‘