لکی مروت: مذاکرات کامیاب، پولیس نے دھرنا ختم کر دیا 

خیبر پختونخوا کے ضلع لکی مروت میں گذشتہ چار روز سے جاری پولیس اہلکاروں کا دھرنا مذاکرات کامیاب ہونے کے بعد ختم کردیا گیا ہے۔ 

لکی مروت میں پولیس اہلکاروں نے چار روز تک دھرنا دیا (زبیر مروت)

خیبر پختونخوا کے ضلع لکی مروت میں گذشتہ چار روز سے جاری پولیس اہلکاروں کا دھرنا مذاکرات کامیاب ہونے کے بعد ختم کردیا گیا ہے۔ 

مذاکرات مروت قومی جرگہ نے کیے، جس میں ڈپٹی کمشنر لکی مروت فہد وزیر، ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈپی پی او) تیمور خان، کیپیٹل سٹی پولیس افسر (سی سی پی او) پشاور قاسم علی خان اور سابق ریجنل پولیس آفیسر بنوں اشفار انور شامل تھے۔ 

مروت قومی جرگے کے رکن عرب خان، جو مذاکرات میں شریک تھے، نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مختلف نکات پر مذاکرات کیے گئے، جو کامیاب رہے۔ 

انہوں نے بتایا کہ پولیس کی جانب سے سکیورٹی فورسز سے اختیارات دینے کی بات کی گئی، جس پر اتفاق اور اس کی ذمہ داری ڈپٹی کمشنر پر ہو گی کہ وہ اس حوالے سے صوبائی حکومت سے بات کریں گے، جس کے لیے چھ دن کا وقت دیا گیا ہے۔

عرب خان کے مطابق: ’لکی مروت کے تین مقامات پر سکیورٹی فورسز یونٹ موجود ہیں، جن میں شہر کے اندر یونٹ کے اختیارات پولیس کو سپرد کرنے پر اتفاق ہوا اور اس کے لیے پولیس کی ایک کمیٹی بھی بنائی گئی ہے۔‘

عرب خان نے مزید بتایا کہ ’دوسرا نکتہ یہ تھا کہ پولیس مظاہرین کے خلاف کسی قسم کی قانونی کارروائی نہیں کی جائے گی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسی طرح عرب خان کے مطابق جرگے میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ پولیس کو بااختیار بنا کر انہیں بکتر بند گاڑیاں و دیگر وسائل دیے جائیں گے۔ 

مذاکرات میں عرب خان کے مطابق اس نکتے پر بھی اتفاق ہوا ہے کہ پولیس فورس میں بیرونی مداخلت نہیں کی جائے گی، جب کہ پولیس کے زخمیوں کو خاص خیال رکھا جائے گا۔ 

دھرنا ختم ہونے کے بعد چار دن سے بند ضلعے کی اہم شاہراہوں کو کھول دیا گیا۔

لکی مروت پولیس مظاہرین کی جانب سے مذاکراتی کمیٹی کے رکن انیس خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ لکی مروت میں سکیورٹی فورسز کے تین یونٹ میں سے ایک پر پولیس کا اعتراض تھا اور ہم نے ان سے اختیارات پولیس کو دینے کا مطالبہ کیا تھا، جو مان لیا گیا ہے۔ 

انہوں نے بتایا کہ ضلعی انتظامیہ اور دیگر متعلقہ افسران اس حوالے سے صوبائی حکومت سے بات کر کے اس یونٹ کے اختیارات پولیس کو دیں گے۔

انیس خان کے مطابق: ’ہم نے 14 نکات پر مشتمل مطالبات سامنے رکھے تھے، جو مان لیے گئے ہیں اور اس میں سب سے بنیادی مطالبہ پولیس کو با اختیار بنانے کا تھا۔‘

انیس خان نے مزید بتایا کہ ’یہاں پر ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ پولیس کسی مشکوک شخص کو پکڑتی تھی تو ان کو چھڑوانے کے لیے ہم پر دباؤ ڈالا جاتا تھا تو یہ مطالبہ بھی مان لیا گیا کہ اب پولیس کسی بھی گرفتار شخص کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرے گی۔‘

پولیس اہلکاروں کا امن و امان کی بگڑتی صورت حال کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ چار دن پہلے ضلع لکی مروت سے اس وقت شروع ہوا تھا، جب نامعلوم افراد نے دو ہفتوں میں پانچ پولیس اہلکاروں کو جان سے مار دیا تھا۔ 

لکی مروت پولیس کے اہلکار اور دھرنا کمیٹی کے رکن انیس خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’تین دن پہلے بتایا تھا کہ وہ تب تک یہاں بیٹھے رہیں گے جب تک اختیارات سکیورٹی فورسز سے واپس پولیس کو منتقل نہیں کیے جاتے۔

’ہمارے دیگر چھوٹے موٹے مطالبات بھی ہیں لیکن بنیادی مطالبہ پولیس کو بااختیار بنانا ہے اور اس بات کی ہم یقین دہانی کرواتے ہیں کہ تین مہینوں میں امن قائم کریں گے۔‘ 

گذشتہ چار دنوں سے پولیس کے اعلیٰ افسران، ضلعی انتظامیہ اور سیاسی قائدین مظاہرین سے مذاکرات کر رہے تھے، جو اب تک ناکام رہے تھے لیکن مروت قومی جرگہ کی مداخلت سے مذاکرات کامیاب ہوئے۔

لکی مروت کے بعد باجوڑ پولیس کی جانب سے بھی کل (جمعرات کو) پولیو ٹیم پر حملے میں پولیس اہلکار کی قتل کے بعد دھرنا شروع ہوا لیکن ڈی پی او کی جانب سے ان کے مسائل حل کرنے کی یقین دہانی کے بعد پولیس نے احتجاج ختم کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان