خیبر پختونخوا کے ضلع لکی مروت میں گذشتہ دو دنوں سے پولیس پر حملوں اور امن عامہ کی خراب صورت حال کے خلاف دھرنا دیا جا رہا ہے جس میں پولیس کو ’مکمل اختیارات‘ دینے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
پولیس اہلکار سول کپڑوں میں احتجاج میں شریک ہیں اور انہوں نے اپنی ڈیوٹیوں کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ انڈس ہائی وے کو کئی گھنٹوں تک بند بھی رکھا گیا ہے۔
پولیس مظاہرین سے ضلعی پولیس سربراہ اور ڈپٹی کمشنر کی جانب سے مذاکرات ناکام رہے ہیں، اور مظاہرین نے پیر کو دھرنا جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا جو آج (منگل) بھی جاری ہے۔
دھرنا کمیٹی کے رکن اور پولیس سب انسپکٹر انیس خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو فون پر بتایا کہ ’ہمارا ایک ہی مطالبہ ہے کہ پولیس کو بااختیار بنایا جائے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’کچھ عرصے سے ہمارے پولیس اہلکاروں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور یہ سلسلہ ختم ہوتا نظر نہیں آتا۔‘
انیس خان کے مطابق، ’ہم مزید برداشت نہیں کر سکتے۔ ہمیں رات کو نیند نہیں آتی۔ ہم اپنے گھر اور بچوں کے لیے فکر مند ہیں۔ ایسی زندگی مزید نہیں گزار سکتے اور ہمارا بنیادی مطالبہ یہی ہے کہ سکیورٹی فورسز سے اختیارات لے کر پولیس کے حوالے کیے جائیں، ہم تین مہینوں میں حالات کنٹرول کر سکتے ہیں۔‘
انہوں نے دیگر مطالبات کے حوالے سے کہا کہ ’پہلے یہ مطالبہ مان لیا جائے تو دیگر چھوٹے موٹے مسائل پر بات ہو سکتی ہے، لیکن پولیس کو بااختیار بنانے کے مطالبے سے ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔‘
یاد رہے کہ حالیہ دنوں میں لکی مروت میں پولیس اہلکاروں پر متعدد حملے کیے گئے ہیں۔ آٹھ ستمبر کو تھانہ گھمبیلہ کے تفتیشی افسر معتبر خان نامعلوم افراد کی فائرنگ میں جان سے گئے تھے۔
اسی طرح سات ستمبر کو تھانہ لکی کے حدود میں ایک پولیس کانسٹیبل کو اپنے سویلین بھائی سمیت نامعلوم افراد نے قتل کر دیا تھا۔
چار ستمبر کو بھی تھانہ صدر کے ہیڈ کانسٹیبل وقار احمد کو گھر کے قریب فائرنگ کر کے نامعلوم افراد نے قتل کیا تھا۔
پولیس مظاہرین سے اظہار یکجہتی کے لیے مساجد میں گذشتہ روز اعلانات کیے گئے تھے، جن میں عوام کو مظاہرے میں شرکت کی ترغیب دی گئی اور دھرنے کے شرکا کے لیے کھانے پینے کا بندوبست کرنے کی بات کی گئی۔
دوسری جانب، لکی مروت بار ایسوسی ایشن نے پولیس کی حمایت میں آج عدالتی کارروائی سے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔
مقامی صحافی زبیر مروت زنگی خیل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دھرنے میں مقامی افراد سمیت وکلا بھی آج شریک ہیں اور انڈس ہائی وے کو پولیس مظاہرین نے بند کیا ہوا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’انڈس ہائی وے پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں جن میں مسافر اور مال بردار گاڑیاں بھی پھنسی ہوئی ہیں۔‘
زبیر مروت نے مزید کہا، ’کل سے پولیس مظاہرین سے مذاکرات کی کوششیں جاری ہیں لیکن مذاکرات ناکام ہو رہے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس ساری صورتحال پر انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس خیبر پختونخوا اختر حیات خان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن انہوں نے وٹس ایپ پیغام پڑھنے کے باوجود کوئی جواب نہیں دیا۔
ضلعی پولیس سربراہ تیمور خان سے بھی متعدد بار رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ان کی طرف سے ابھی تک کوئی جواب نہیں آیا۔
تاہم کل دھرنے میں موجود شرکا سے ضلعی پولیس سربراہ تیمور خان نے خطاب میں کہا تھا کہ ’اگر میں، ڈویژنل پولیس سربراہ اور آپ سب لوگ تیار ہیں (امن کی بحالی کے لیے) تو پھر ہمیں کسی کی بھی ضرورت نہیں ہو گی۔‘
انہوں نے مزید کہا، ’سکیورٹی فورسز نے سارے مطالبات مان لیے ہیں اور انہوں نے بتایا ہے کہ اگر آپ لوگ نہیں چاہتے تو ہم کمپلیکس سے باہر نہیں نکلیں گے اور پولیس کنٹرول روم میں سکیورٹی فورسز کا کوئی اہلکار نہیں بیٹھے گا۔‘
اس موقع پر ریجنل پولیس افسر عمران شاہد بھی موجود تھے اور انہوں نے شرکا کو بتایا کہ ’ہر مسئلے کو حل کرنے کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے اور آپ ہمیں دو ہفتے کا وقت دیں، ہم آپ کے مطالبات پر بات کریں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا، ’سرکاری معاملات کا اپنا ایک پروٹوکول ہوتا ہے، آپ ہمیں وقت دیں تاکہ مسئلہ حل ہو سکے۔‘
اس معاملے پر انڈپینڈنٹ اردو نے صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف سے رابطہ کیا لیکن اس رپورٹ کے چھاپنے تک انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔