پاکستان میں جامعہ الازہر کے کیمپس کا اعلان، ’دینی تعلیم میں انقلاب کا موقع‘

مصر کے مفتی اعظم ڈاکٹر نظیر محمد عیاد نے پاکستان میں جامعہ الازہر کے کیمپس کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا مقصد اسلامی تعلیمات کے ساتھ ساتھ عربی ثقافت کو فروغ دینا ہے تاکہ دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید مضبوط کیا جا سکے۔

پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے مصر کے مفتی اعظم ڈاکٹر نظیر محمد عیاد نے جمعے کو اعلان کیا ہے کہ مصر کی جامعہ الازہر پاکستان میں اپنا کیمپس قائم کرے گی۔

اس بات کا اعلان انہوں نے اسلام آباد میں ایک اعلیٰ سطح کے وفد کے ہمراہ پاکستان کے وفاقی وزیر برائے تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی سے ملاقات کے دوران کیا۔

ڈاکٹر نظیر محمد عیاد کا کہنا تھا کہ جامعہ الازہر میں 40 فیصد سے زائد طالبات زیر تعلیم ہیں اور جامعہ خواتین کی تعلیم کی پُرزور حامی ہے۔ اس کے قیام کا مقصد اسلامی تعلیمات کے ساتھ ساتھ عربی ثقافت کو بھی فروغ دینا ہے تاکہ دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید مضبوط کیا جا سکے۔

مفتی اعظم مصر کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کو اپنے علما کو مصر بھیجنا چاہیے تاکہ وہ دنیا کی قدیم ترین درسگاہوں میں سے ایک کے تجربات اور تعلیمات سے مستفید ہو سکیں۔

وفاقی وزیر برائے تعلیم خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ پاکستان اور مصر دونوں دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں کے حامل ممالک ہیں۔ انہوں نے جامعہ الازہر کو پوری اسلامی دنیا کے لیے بے حد اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کا خواب ہے کہ وہ اس تعلیمی ادارے کا دورہ کریں، جو اسلامی تعلیمات کا مرکز ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ وزارت تعلیم جامعہ الازہر کے کیمپس کے قیام کے لیے ہر ممکن تعاون فراہم کرے گی۔ ’حکومت کی خواتین کو مساوی تعلیمی مواقع فراہم کرنے کے عزم کو اجاگر کرنے کے لیے پاکستان بھر کی یونیورسٹیوں اور کالجوں سے دو ہزار سے زائد طالبات کو 11 جنوری کو ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کے لیے مدعو کیا گیا ہے۔‘

خالد مقبول صدیقی نے مفتی اعظم مصر کو یہ بھی بتایا کہ وفاقی دارالحکومت کے تمام سرکاری سکولوں میں عربی زبان کی کلاسز شروع کی گئی ہیں تاکہ اسلام کی حقیقی تعلیمات سے آگاہی پیدا کی جا سکے۔

جامعہ الازہر کی اسلامی دنیا میں اہمیت

جامعہ الازہر کا شمار دنیا کی قدیم ترین جامعات میں ہوتا ہے، جو نہ صرف اسلامی تعلیمات بلکہ عصری علوم کے فروغ میں بھی اپنی منفرد حیثیت رکھتی ہے۔ مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں واقع یہ جامعہ علم و تحقیق کا ایسا مرکز ہے جس نے صدیوں تک دنیا بھر کے طلبہ اور علما کو اپنی جانب متوجہ رکھا۔

970 عیسوی میں فاطمی خلافت کے دور میں قائم ہونے والی یہ درسگاہ آج بھی اسلامی دنیا کے لیے رہنمائی کا ایک مستند ذریعہ ہے۔ یہاں قرآن و شریعت کے ساتھ ساتھ منطق، فلسفہ، صرف و نحو اور دیگر علوم کی تدریس بھی کی جانے لگی۔

پاکستان سے درس نظامی کے بعد جو علما جامعہ الازہر سے تعلیم حاصل کر کے آئے، انہوں نے امتیازی طور پر اپنے ناموں کے ساتھ لفظ الازہری کا اضافہ کیا۔

پاکستان میں عربی زبان کی تدریس سے وابستہ محقق اور ترجمہ کار احمد تراث نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جامعہ الازہر کی پاکستان آمد کو کئی حیثیتوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’یہ عالم اسلام کی سب سے قدیم اور سب سے بڑی یونیورسٹی ہے اور اس میں تقریباً وہ سارے علوم پڑھائے جا رہے ہیں جو ہمارے روایتی دینی اداروں میں بھی ہیں، کچھ جدید علوم بھی ہیں، جن کو آپ روایتی دینی علوم کی توسیع کہہ سکتے ہیں۔

’اسے یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ دور جدید میں مسلمانوں کو اسلام کے تحفظ کے لیے، دفاع کے لیے اور اس کی وضاحت و تشریح کے لیے جن چیزوں کی ضرورت پڑی، یا جو جدید نظام دنیا میں پیش کیے گئے، ان کے مقابلے، ان کے متبادل کے طور پر اسلامی نظام کی، جن جن جہتوں کو پیش کرنے کی ضرورت پیش آئی تو وہ سب چیزیں بھی الازہر کے نصاب میں شامل ہیں۔‘

لیکن ان کا کہنا تھا کہ ’الازہر کے نصاب کا اور یہاں ہمارے بر صغیر کے روایتی دینی اداروں کے نصاب کا بہت زیادہ فرق ہے۔ کیوں کہ وہاں کا طریقہ تدریس بہت زیادہ تبدیل ہو چکا ہے، ماڈرن دنیا سے ہم آہنگ ہوچکا ہے۔‘

بقول احمد تراث: ’اس وجہ سے بہت زیادہ گہرائی میں جاکر اور بڑی وسعت سے کسی بھی مضمون کا مطالعہ کرتے ہیں، اس کی تدریس کرتے ہیں اور طلبہ کو سکھاتے ہیں بلکہ یوں کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے طلبہ سے اچھی خاصی عرق ریزی کرواتے ہیں۔ ان سے علمی ترقی کے لیے بہت زیادہ محنت کرواتے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ ان کو ایک بے کار پرزے کے طور پر رکھا جاتا ہو۔ اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ وہاں کے فاضلین کی گفتگو اور تحریر سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ کہاں کے سند یافتہ ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’پڑھانے کے بعد وہ لوگ طلبہ کے لیے مختلف طرح کے تربیتی کورسز بھی کرواتے رہتے ہیں۔ یعنی مسجد کے امام یا خطبا کو کورسز کروائے جاتے ہیں کہ وہ اپنی اپنی فلیڈ میں جاکر کیسے بہتر کام کر سکتے ہیں۔ یہ چیز بھی الازہر کی نمایاں خدمات میں شامل ہے۔

’بعض ایسی روایتی چیزیں ہیں جو ہمارے برصغیر میں اس طرح سے توجہ حاصل نہیں کر پاتیں، لیکن الازہر میں پوری آب و تاب سے موجود ہیں۔ مثلاً قراتوں کی مختلف اقسام ہیں اور ان کے مطابق تربیت کرنا، ان کی تعلیم دینا، ان کو سکھانا۔ یہ ہمارے ہاں بہت کم رہ گیا ہے لیکن الازہر میں اس پر کام ہو رہا ہے۔‘

احمد تراث نے خدشہ ظاہر کیا کہ ’فکری اور فقہی اعتبار سے عین ممکن ہے کہ کچھ مسائل بھی پیدا ہوں۔ مثلاً ایک تو یہ کہ وہاں پر کسی ایک فقہ کے متعلق تعلیم نہیں جاتی، مختلف فقہات کی تعلیم دی جاتی ہے، پھر الازہر کے دارالافتا میں ایک فیکٹر پایا جاتا ہے کہ وہ مختلف فقہوں کے اقوال دیکھتے ہیں اور ان میں سے، جس فقہ کا قول ان کو صحیح لگتا ہے وہ اس کے مطابق فتویٰ دے دیتے ہیں، میرا خیال ہے اس کو یہاں قبول نہیں کیا جائے گا۔

’اگر صرف تعلیم کی حد تک بات ہو تو اس میں بہت زیادہ انقلاب آئے گا اور نوجوانوں کو بہت گہرائی اور وسعت کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے کے مواقع ملیں گے۔‘

احمد تراث کا کہنا تھا کہ ’الازہر میں دیگر غیر ملکی زبانیں سکھانے کا بھی خاص اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ یہ ان کے فاضلین کے کام آئیں، یہ بھی اس کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔‘

ثقافتی ورثہ

جامعہ الازہر کی عمارت اسلامی فن تعمیر کا ایک نادر نمونہ ہے۔ قاہرہ کے وسط میں واقع اس کمپلیکس میں تاریخی مسجد، درسگاہیں، لائبریریاں، اور دیگر عمارات شامل ہیں۔

ان عمارات کی تعمیر مختلف مسلم ادوار جیسے فاطمی، ایوبی اور عثمانی خلافت کے زمانے میں ہوئی، جس کی وجہ سے یہاں مختلف ادوار کے طرز تعمیر کا حسین امتزاج دکھائی دیتا ہے۔ جامعہ الازہر کے پانچ مینار، جو 1340، 1469 اور 1510 میں تعمیر کیے گئے، اپنی دیدہ زیب بناوٹ اور تاریخ میں اہمیت کے حامل ہیں۔

تعلیمی نصاب کا ارتقا

ابتدائی طور پر جامعہ الازہر کا نصاب دینی تعلیمات تک محدود تھا، جن میں فقہ، حدیث، شریعت اور عربی ادب شامل تھے، تاہم وقت کے ساتھ نصاب میں وسعت پیدا ہوئی اور عصری علوم جیسے سائنس، انجینیئرنگ، عسکری علوم اور میڈیکل کے شعبے بھی شامل کیے گئے۔ موجودہ وقت میں جامعہ الازہر کے تین سو سے زائد تعلیمی شعبے ہیں، جہاں ہزاروں غیر ملکی طلبہ بھی تحصیل علم کے لیے آتے ہیں۔

اردو زبان کی ترویج

جامعہ الازہر نے اردو زبان و ادب کی ترقی کے لیے بھی اہم خدمات انجام دی ہیں۔ 2021 میں ڈاکٹر ولاء جمال العسیلی کے روزنامہ ایکسپریس میں شائع شدہ مضمون کے مطابق جامعہ الازہر میں 1966 کے دوران پہلا شعبہ اردو قائم ہوا جو گرلز برانچ میں تھا۔

1979 میں بوائز برانچ میں بھی اردو ڈیپارٹمنٹ کا قیام عمل میں آیا۔ ان شعبہ جات کے ذریعے اردو زبان و ادب کی تعلیم دی جاتی ہے اور تحقیقی مجلہ اردویات شائع کیا جاتا ہے، جو اردو کے مختلف موضوعات پر روشنی ڈالتا ہے۔

جامعہ الازہر کی لائبریری

جامعہ الازہر کی لائبریری دنیا کی قدیم ترین علمی لائبریریوں میں شمار کی جاتی ہے۔ یہاں نادر و نایاب مخطوطات اور کتابیں محفوظ ہیں، جو اسلامی تاریخ، فقہ اور دیگر علوم کے مطالعے کے لیے نہایت قیمتی ہیں۔

جامعہ الازہر کے فتاویٰ کی اہمیت

جامعہ الازہر کو اسلامی دنیا میں فتویٰ سازی کے حوالے سے ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ یہاں قائم اسلامک ریسرچ اکیڈمی دورِ جدید کے مسائل پر تحقیق کرکے فتاویٰ جاری کرتی ہے۔ مصر کے دارالافتاء کے ساتھ مل کر جامعہ الازہر مختلف دینی مسائل پر رہنمائی فراہم کرتی ہے اور اس کے فتاویٰ کو اسلامی دنیا میں کلیدی حیثیت حاصل ہے۔

عالمی طلبہ کے لیے وظائف

جامعہ الازہر دنیا بھر کے طلبہ کے لیے مختلف تعلیمی مواقع فراہم کرتی ہے اور یہاں 100 سے زائد ممالک کے طلبہ زیر تعلیم ہیں۔

نمایاں شخصیات

جامعہ الازہر کے فارغ التحصیل افراد میں کئی مشہور علما، ادبا، اور دانشور شامل ہیں، جنہوں نے دنیا بھر میں اسلامی علوم اور ثقافت کو فروغ دیا۔

یوسف القرضاوی، جو جدید اسلامی فقہ کے ماہر تھے اور ڈاکٹر طہ حسین اس جامعہ کے نمایاں سابق طلبہ میں شامل ہیں۔

علامہ اقبال، سر راس مسعود اور علامہ شبلی نعمانی نے جب اس جامعہ کا دورہ کیا تو یہاں موجود غیر رسمی طریقہ تعلیم سے بہت متاثر ہوئے اور برصغیر کے علمی حلقوں میں جامعہ کے تعلیمی نظام سے استفادہ کرنے کی تحریک غالب رہی۔

جامعہ الازہر، اپنے علمی ورثے، ثقافتی عظمت اور دینی و عصری تعلیم کے امتزاج کی وجہ سے، نہ صرف مصر بلکہ دنیا بھر میں ایک ممتاز مقام رکھتی ہے۔ اس جامعہ کا ہزار سالہ علمی سفر اسلامی دنیا کے لیے روشنی کا مینار ہے، جو آج بھی علم و تحقیق کے میدان میں اپنی خدمات انجام دے رہا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان