قومی نصاب کونسل کی سربراہ مریم چغتائی کا کہنا ہے کہ ’پاکستان بھر میں زیر تعلیم اقلیتی طلبہ کے لیے کتابیں تیار کرائی جا رہی ہیں، جن کا مسودہ ہم صوبائی حکومتوں کو بھیج رہے ہیں۔‘
’صوبہ پنجاب کے سکولوں میں توقع ہے کہ اگست میں بارہویں جماعت تک اقلیتی طلبہ کو ان کے اپنے مذاہب کی درسی کتابیں پڑھائی جانے لگیں گی۔
’اگر کوئی صوبہ ہم سے مطالبہ کرے گا تو وہ اپنے متعلقہ بک بورڈ کے ذریعے ان کتابوں کی اشاعت کروا سکتا ہے۔‘
نیشنل بک فاؤنڈیشن ابتدائی طور پر ان طلبہ کے لیے اردو میں کتابیں شائع کرے گی جن کا تعلق ہندو، مسیحی، بدھ، سکھ، بہائی، کیلاش اور زرتشت مذاہب سے ہے۔
مریم چغتائی نے مزید بتایا کہ ’ہماری سات مذاہب کے مقامی رہنماؤں سے کئی مہینوں سے بات چیت چل رہی تھی اور اس مناسبت سے کتابیں تیار کی جا رہی ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’پنجاب سے درخواست موصول ہوئی ہے کہ وہ اپنے سکولوں میں اقلیتی طلبہ کو ان کے مذاہب کے مطابق درسی کتابیں پڑھانے میں دلچسپی رکھتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پانچویں جماعت تک کی کتابیں تیار ہو چکی ہیں جبکہ بارہویں جماعت تک کی کتابیں تیار کی جائیں گی کیوں کہ اسلامیات بارہویں جماعت تک ہوتی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان اقلیتی ٹیچرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین انجم پال اقلیتوں کے حوالے سے مذہبی کتابیں نصاب میں شامل کروانے کے لیے 2005 سے کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’میں بحیثیت معلم سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے نصاب تعلیم میں اب بھی ترامیم کی بہت زیادہ گنجائش موجود ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس عرصے میں وزیرِ اعظم سمیت چیف جسٹس کو خطوط لکھے اور قومی نصاب کونسل میں بھی خط لکھا جس میں مریم چغتائی نے دلچسپی دکھائی۔
انہوں نے بتایا کہ 2020 میں حکومت پاکستان کی جانب سے اجازت ملنے کے بعد 2021 میں مسودہ تیار ہوا اور 2022 میں اسے منظور کر لیا گیا۔
انجم جیمز پال نے مطالبہ کیا ہے کہ ان کتابوں کو پڑھانے کے لیے اقلیتی اساتذہ بھرتی کیے جانے چاہییں۔