پاکستان کے دفتر خارجہ نے برطانیہ میں پاکستانی کمیونٹی کے بارے میں حالیہ نفرت انگیز ریمارکس سے متعلق کہا ہے کہ ’چند افراد کے فعل‘ کی بنیاد پر پوری پاکستانی کمیونٹی کو بدنام کرنا قابل مذمت ہے۔
دفتر خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان نے پیر کو ایک بیان میں کہا ہے کہ ’پاکستان کو برطانیہ میں بڑھتی ہوئی نسل پرستانہ اور اسلامو فوبک سیاسی اور میڈیا کے تبصروں پر گہری تشویش ہے۔‘
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’چند افراد کے انفرادی قابل مذمت فعل کو 17 لاکھ برطانوی پاکستانیوں کے ساتھ ملایا جا رہا ہے۔
’پاکستانی نژاد برطانوی شہریوں کی برطانیہ کی ترقی اور درحقیقت آزادی میں کردار ادا کرنے کی بھرپور تاریخ موجود ہے۔‘
ترجمان دفتر خارجہ نے مزید کہا کہ ’ماضی میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے مسلمان فوجیوں کی ایک غیر معمولی بڑی تعداد نے برٹش انڈین آرمی میں خدمات انجام دیں اور دونوں عالمی جنگوں میں جمہوریت کی خاطر اپنی جانیں قربان کیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’پاکستان اور برطانیہ کی دوستی کی گرمجوشی، مضبوط تعاون اور اعتماد پر مبنی ہے۔‘
’دہائیوں سے پروان چڑھا یہ رشتہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ایک اہم ترجیح ہے۔ گہرے اور کثیر جہتی تعلقات تجارت اور سرمایہ کاری، تعلیم، سلامتی، انسداد دہشت گردی، پارلیمانی تعاون اور عوام سے عوام کے رابطوں سمیت اہم شعبوں کا احاطہ کرتے ہیں۔‘
پاکستان کا کہنا ہے کہ 1.7 ملین مضبوط برطانوی پاکستانی کمیونٹی کی موجودگی دونوں دوست ممالک کے درمیان مضبوط ترین ربط فراہم کرتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستانی نژاد برطانوی آج برطانیہ کے صحت، خوردہ اور خدمات کے شعبوں میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بہت سے برطانوی پاکستانی اعلیٰ عوامی عہدوں پر فائز ہیں اور ہزاروں افراد پارلیمنٹ کے ممبران، میئرز، کونسلرز، اور مقامی پولیس اور میونسپل سروسز کے ممبران کے طور پر اپنی برادریوں کی خدمت کرتے ہیں۔‘
برطانیہ کے گرومنگ گینگ سیکنڈل میں پاکستانیوں کے ملوث ہونے کی حقیقت:
ایلون مسک نے حال ہی میں 2010 اور اس کے بعد کے گرومنگ گینگ سکینڈلز سے نمٹنے پر برطانیہ کی موجودہ لیبر حکومت، خاص طور پر وزیر اعظم سر کیئر سٹارمر پر تنقید کی ہے۔
انہوں نے برطانیہ کے وزیر اعظم پر پبلک پراسیکیوشن کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے اپنے دور میں مبینہ طور پر ملوث ہونے بچوں کے ’جنسی استحصال‘ کے معاملات کو غلط طریقے سے ہینڈل کرنے کے الزامات لگائے۔
انڈپینڈنٹ اردو کو میسر معلومات کے مطابق برطانیہ میں گرومنگ گینگ سکینڈل، جو 2010 میں سامنے آیا، ایک اہم مسئلہ رہا ہے، جس کی رپورٹس میں ’بچوں کے جنسی استحصال سے نمٹنے میں نظام کی ناکامیوں‘ کو نمایاں کیا گیا ہے، خاص طور پر رودرہم اور ٹیلفورڈ جیسے قصبوں میں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایلون مسک کے تبصروں نے حکومت کی جانب سے ان مقدمات سے نمٹنے اور عوامی گفتگو کو تشکیل دینے میں بااثر شخصیات کے کردار پر بحث کو دوبارہ شروع کر دیا ہے۔
برطانیہ کی پارلیمنٹ (ہاؤس آف کامنز) نے کنزرویٹو کی جانب سے حکومت کو گرومنگ گینگز کے بارے میں قومی انکوائری قائم کرنے کی کوشش کو 253 کے فرق سے مسترد کر دیا ہے۔
پاکستان کے لیے یہ منظر نامہ تشویشناک اس لیے ہے کیونکہ برطانوی پاکستانیوں کی ایک قابل ذکر تعداد کو گرومنگ کے متعدد مقدمات میں سزا سنائی گئی اور یہ تاثر پیدا کیا گیا ہے کہ یہ گینگز زیادہ تر پاکستانیوں پر مشتمل ہیں۔
برطانیہ کی سیاست میں انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی کئی بااثر شخصیات نے بھی اس سکینڈل میں مبینہ طور پر ملوث پاکستانی گینگ کے خلاف ٹویٹ کیا ہے۔ جبکہ 2015 کی ایک برطانوی تحقیق کے مطابق ’گروپ اور گینگ پر مبنی بچوں کے جنسی استحصال‘ کے 1,231 مجرموں میں سے 42 فیصد سفید فام تھے، 14 فیصد کو ایشیائی یا ایشیائی برطانوی اور 17 فیصد کو سیاہ فام قرار دیا گیا تھا۔
برطانیہ کے ہوم آفس نے 2020 میں دستیاب ڈیٹا کا ایک مطالعہ شروع کیا جس میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ ’تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ گروپ کی بنیاد پر بچوں کے جنسی استحصال کے مجرم زیادہ تر سفید فام ہیں۔‘
برطانوی میڈیا میں اس سکینڈل کے بارے میں بھی بڑے پیمانے پر رپورٹ کیا گیا ہے اور ان گینگز میں برطانوی پاکستانیوں کے مبینہ طور پر ملوث ہونے کو نمایاں طور پر اجاگر کیا گیا ہے۔ اس منظر نامے نے برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں اور مشن کو بھی شدید دھچکا لگا دیا ہے۔