پنجاب کے شہر جہلم کے علاقے سوہاوا سے تعلق رکھنے والے پاکستانی نژاد برطانوی شہری کے خلاف ان کی والدہ نے ایف آئی آر درج کرائی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان کا اکلوتا بیٹا جائیداد کی خاطر والدین پر تشدد میں ملوث ہے۔
کنیز اختر کی جانب سے درج مقدمے میں کہا گیا ہے کہ ان کا ’اکلوتا بیٹا برطانیہ میں رہتا ہے جب بھی پاکستان آتا ہے والدین پر تشدد کرتا ہے۔ اس نے زبردستی مجھے اور اپنے فالج زدہ والد حق نواز سے ساری جائیداد اپنے نام کروا لی ہے۔‘
’اس نے برطانیہ میں بیٹھ کر اپنے چار ملازموں زعفران، محمد جاوید، محمداخلاق، اور بشیر احمد کے ذریعے گزشتہ روز پیر کو ہم پر تشدد کروایا اور کمرے میں بند کروا دیا اور وہ ہمیں نشہ آور انجکشن لگاتے رہے۔‘
متاثرہ والد حق نواز نے چند دن پہلے ڈی پی او جہلم کو درخواست دی تھی کہ وہ فالج کے مریض ہیں اور ٹانگ کی ہڈی ٹوٹنے سے چل پھر نہیں سکتے۔ ان کے بیٹے نے تشدد کر کے زبردستی ان سے ساری جائیداد جو کروڑوں روپے مالیت کی ہے اپنے نام کرا لی۔ لہذا ان کی جائیداد واپس ان کے نام منتقل کی جائے۔
حق نواز کی بیٹی شائقہ خان بھی برطانیہ میں مقیم ہیں ان کے مطابق ان کے بھائی نے ’والدین پر تشدد کر کے ساری جائیداد اپنے نام منتقل کرا لی ہے اور بہن کو جائیداد میں حق سے محروم کر دیا ہے۔ بھائی نے والدین پر تشدد کر کے زمین بھی اسی لیے اپنے نام منتقل کرائی کہ بہن کو حصہ نہ دینا پڑے۔‘
ڈی پی او جہلم کے بقول ’اس مقدمے میں ملوث چار ملزموں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ جبکہ ملزم برطانیہ میں ہونے کی وجہ سے آزاد ہے۔ تاہم قانون کے مطابق کارروائی کی جا رہی ہے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو نے ملزم سے ان کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کرنے کی کوشش کی تاہم تاحال ان سے رابطہ نہیں ہو سکا۔
معروف عالم دین قاری حنیف جالندھری کے مطابق ’بیٹوں اور بیٹیوں کا والدین کی جائیداد میں حصہ شرعی طور پر فرض ہے۔ قرآن میں بھی اس حوالے سے حکم دیا گیا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں بچیوں کو حق سے محروم کرنا فیشن بن چکا ہے۔‘
قانون دان امجد علی شاہ کے مطابق ’پاکستانی قانون میں طے شدہ وراثت کے مطابق جائیداد میں بیٹے کے مقابلے میں آدھا حصہ بیٹی کا ہوتا ہے۔ اس پر سپریم کورٹ کے فیصلے بھی موجود ہیں۔ یعنی تین میں سے دو حصے لڑکے کو اور ایک حصہ لڑکی کو ملتا ہے۔‘
مقدمے کی تفصیلات
ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) جہلم ناصر باجوہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’تھانہ سوہاوہ کی حدود میں گزشتہ روز پیر کو پولیس نے اطلاع ملنے پر حق نواز نامی بزرگ اور ان کی اہلیہ پر تشدد کرنے والے چار ملزمان کو گرفتار کر لیا۔ خاتون کنیز اختر کی مدعیت میں مقدمہ درج کر کے پولیس نے مزید کارروائی شروع کر دی ہے۔ ان کا اکلوتا بیٹا برطانیہ میں مقیم ہے اورایک بیٹی بھی وہیں سیٹلڈ ہیں۔‘
’ہم نے قانونی کارروائی شروع کر دی ہے، گرفتار ملزمان سے تفتیش بھی جاری ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ انہوں نے بیٹے کے کہنے پر بوڑھے والدین پر تشدد کیا ہے لیکن بیٹے کے برطانیہ میں مقیم ہونے کی وجہ سے گرفتار نہیں کیا جا سکا۔‘
شائقہ خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں اور میرے بھائی کئی سال سے برطانیہ میں مقیم ہیں، وہاں کی شہریت بھی حاصل کر رکھی ہے۔ بھائی کی دو شادیاں اور بچے بھی ہیں۔ وہ خود بھی شادی شدہ ہیں، ان کے والدین کی سوہاوہ میں زمین ہے جو جی ٹی روڈ پر ہونے کی وجہ سے کروڑوں روپے مالیت کی ہے۔ میرا بھائی مجھے حصہ دینے کے ڈر سے ساری جائیداد زبردستی والدین سے انگوٹھے لگوا کر اپنے نام کرا چکا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میرے والدین کی جان کو خطرہ ہے۔‘ اس حوالے سے برطانیہ میں پاکستانی ایمبیسی سے بھی وہ رجوع کر چکی ہیں اور پاکستان میں پولیس حکام سے بھی رابطے میں ہیں۔
انہوں نے حکام سے اپیل کی ہے کہ ’میرے والدین کو تحفظ فراہم کیا جائے۔‘
جائیداد سے بیٹیوں کوحصہ دینے کا معاملہ:
معروف عالم دین قاری حنیف جالندھری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’شرعی طور پر بیٹیوں کو جائیداد سے حصہ دینا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ قرآن پاک میں بھی بیٹیوں کو جائیداد سے حصہ دینے کا حکم موجود ہے۔ البتہ علما نے مسلمانوں پر جو حصہ دینے کی حد مقرر کی ہے وہ بیٹوں کے مقابلہ میں نصف حصہ بنتا ہے۔ اس بارے میں بھائی ہو یا والد، جو بھی انہیں حصے سے محروم رکھتا ہے وہ شرعی طور پر گناہ گار ہو گا۔ یہ حد اس لیے مقرر کی گئی کہ مرد پر گھریلو ذمہ داریاں ہوتی ہیں جبکہ عورتوں پر کم، اس لحاظ سے ان کا حق مقرر کیا گیا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سابق وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل امجد شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان میں شرعی لحاظ سے جائیداد کی تقسیم کے فارمولے کو ہی تسلیم کیا گیا ہے جس کے مطابق سپریم کورٹ کے بھی کئی فیصلے موجود ہیں کہ والد کی جائیداد سے بیٹی کو بیٹے کے مقابلے میں آدھا حصہ لینے کا قانونی حق حاصل ہے۔‘
انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’باپ کی زندگی میں ہی بیٹی اپنے حق کا دعوی کر سکتی ہے لیکن باپ اگر ساری جائیداد بیٹے کے نام کر دے تو بیٹی زندگی میں ہی اپنے حق کے لیے عدالت سے رجوع کر سکتی ہے اس کے مرنے کے بعد اس کی اولاد ماں کے حصے کا دعویٰ نہیں کر سکتی۔‘
امجد شاہ کے بقول، ’باپ سے زبردستی زمین نام لگوانے پر عدالت سے رجوع کیا جاسکتا ہے اگر یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ والد کی رضا مندی کے بغیر جائیداد اپنے نام منتقل کرائی گئی ہے تو عدالت اس معاملے پر نظر ثانی کا حکم دے سکتی ہے۔ اگر کوئی بیٹی حصے سے محروم کی گئی ہو وہ بھی عدالت سے رجوع کر کے اپنا حق حاصل کرنے کا قانونی حق رکھتی ہے۔‘