ایران کے سرکاری میڈیا نے رپورٹ کیا ہے کہ ہفتے کو دارالحکومت تہران میں سپریم کورٹ کی عمارت کے باہر فائرنگ کے نتیجے میں دو جج جان سے چلے گئے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایرانی عدلیہ کی ویب سائٹ میزان آن لائن نے رپورٹ کیا کہ ’سپریم کورٹ کے تین ججوں کو نشانہ بنایا گیا جن میں سے دو شہید ہو گئے۔‘
مزید کہا گیا کہ ’حملہ آور نے خود کو گولی مار کر اپنی جان لے لی۔‘
ریاستی خبر رساں ایجنسی ارنا نے بتایا کہ حملے میں ایک اور شخص زخمی بھی ہوا۔
میزان آن لائن نے جان سے جانے والے ججوں کی شناخت علی رازینی اور محمد مغیثی کے طور پر کرتے ہوئے بتایا کہ ’انہوں نے قومی سلامتی، جاسوسی اور دہشت گردی سے متعلق جرائم کے خاتمے کے لیے‘ مقدمات پر کام کیا۔
ججوں کے قتل کی وجہ فوری طور پر واضح نہیں ہو سکی، لیکن میزان نے کہا کہ حملہ آور کا سپریم کورٹ میں زیر سماعت کسی بھی کیس سے تعلق نہیں تھا۔ تاہم حملہ آور کی شناخت سے متعلق مزید تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
میزان نے مزید کہا کہ حکام نے واقعے کی تحقیقات شروع کر دی ہے۔
68 سالہ سینیئر جج محمد مغیثی 2019 میں امریکی پابندیوں کی زد میں آئے تھے۔ امریکی محکمہ خزانہ کے مطابق انہوں نے ’بے شمار غیر منصفانہ مقدمات کی نگرانی کی جن میں الزامات کی تصدیق نہیں کی گئی اور شواہد کو نظرانداز کیا گیا۔‘
میزان کے مطابق 71 سالہ علی رازینی نے ایران کی عدلیہ میں کئی اہم عہدوں پر کام کیا اور 1998 میں اس وقت قاتلانہ حملے کا نشانہ بنے تھے، جب حملہ آوروں نے ان کی گاڑی پر مقناطیسی بم نصب کیا۔
اگرچہ ججوں کو نشانہ بنائے جانے کے واقعات شاذ و نادر ہی ہوتے ہیں لیکن ایران میں گذشتہ برسوں میں کئی نمایاں شخصیات پر فائرنگ کے واقعات پیش آ چکے ہیں۔
اکتوبر میں جنوبی شہر کازرون میں ایک مسلمان مبلغ کو جمعے کی نماز کے بعد گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔
اپریل 2023 میں طاقتور عالم دین عباس علی سلیمانی کو شمالی صوبے مازندران کے بینک میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔
اس سے قبل اگست 2005 میں ایران کے معروف جج حسن مقدس کو تہران کے مصروف کاروباری علاقے میں دو حملہ آوروں نے ان کی کار میں گھس کر قتل کر دیا۔
ان کے قتل میں ملوث دو افراد کو دو سال بعد سر عام پھانسی دے دی گئی تھی۔