پاکستان کی ڈولتی معیشت میں امید کی کرنیں

سیاسی عدم استحکام اور سکیورٹی کی چیلنجوں کے باوجود پاکستانی معیشت میں اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی صلاحیت موجود ہے۔

ڈیلر 26 جنوری 2023 کو کراچی کی منی ایکسچینج مارکیٹ میں امریکی ڈالر جمع کر رہا ہے۔ 26(اے ایف پی/ آصف حسن)

بالکل ایک ایسے تباہ حال جہاز کی طرح جو ایک شدید طوفان سے نکلنے کے بعد ڈولنا بند کر دیتا ہے، پاکستان کی معیشت دو سال بعد آخر کار مستحکم ہو گئی ہے۔

اعداد و شمار خود بولتے ہیں۔ پاکستان نے 15 سالوں میں چھ ماہ کا سب سے زیادہ کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ریکارڈ کیا ہے، جبکہ مسلسل کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس اور ترسیلات زر کی مد میں زرمبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے بحالی ہوئی ہے جو اب تقریباً 12 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔

اسی دوران دسمبر 2024 کے آخر میں افراط زر 4.1 فیصد رہا، جب کہ مئی 2023 میں یہ تقریباً 40 فیصد تھا، جبکہ شرح سود تاریخی بلند ترین سطح سے نیچے ہے جس کی وجہ سے سٹاک مارکیٹ میں زبردست تیزی آئی ہے۔

اس اقتصادی استحکام کا سہرا پاکستان کے اقتصادی پالیسی سازوں کو جاتا ہے۔ بہر حال موجودہ اقتصادی صورت حال کو زیادہ بہتر طور پر ’غیر مستحکم استحکام‘ کہا جا سکتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ منڈلاتے ہوئے بیرونی اور اندرونی چیلنجز ہمیں جلد ہی ان دنوں میں واپس لے جا سکتے ہیں جب ملک کا اقتصادی مستقبل تاریک نظر آتا تھا۔

ایک لحاظ سے یہ موجودہ اقتصادی صورتحال ہیروڈ-ڈومر ماڈل کی یاد دلاتی ہے، جو ایک کلاسیکی اقتصادی ماڈل ہے جسے کینزین ماڈل کہا جاتا ہے۔ اس ماڈل کو 1940 کی دہائی میں اقتصادی ترقی کو بیان کرنے کے لیے رائے ہیروڈ اور ایوسی ڈومر نے آزادانہ طور پر تیار کیا تھا۔ ہیروڈ-ڈومر ماڈل نے ’وارنٹڈ‘ شرح نمو کو مطلوبہ حالت کے طور پر بتایا کیونکہ اس نے بےقابو کساد بازاری کو روکا۔

تاہم وارنٹڈ شرح نمو طبعی طور پر غیر مستحکم تھی کیونکہ معمولی انحرافات بھی معیشت کو اس کے ’چاقو کی دھار‘ جیسی تیز کی ترقی کے راستے سے ہٹا دیتے ہیں۔

پاکستان کے اقتصادی پالیسی سازوں کے پاس اب بھی فکر مند ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں کیونکہ پاکستان کی اقتصادی ترقی ہیروڈ-ڈومر کی چاقو کی دھار پر ایک خطرناک سفر پر گامزن ہے۔ بیرونی محاذ پر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ انتخاب نے عالمی معیشت میں بہت زیادہ غیر یقینی صورت حال پیدا کر دی ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ اس کی تجویز کردہ ٹیرف کا ممکنہ اثر کیا ہو گا جو کہ چینی درآمدات پر 60 فیصد تک ہو سکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کم از کم ابتدائی طور پر یہ غیر یقینی صورت حال عالمی سطح پر طویل مدتی شرح سود میں اضافے کے ذریعے ظاہر ہو رہی ہے، جیسا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی جانب سے شائع کردہ تازہ ترین عالمی اقتصادی آؤٹ لک کے مطابق ہے۔

جہاں صدر ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی عالمی معیشت کے لیے بری خبر ہو گی، وہ خاص طور پر پاکستان کی برآمدات کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ پاکستان کی برآمدات پر امریکی ٹیرف کرنٹ اکاؤنٹ کو منفی طور پر متاثر کریں گے اور یہ امریکی ڈالر کی مضبوطی کے ساتھ ساتھ USD-PKR ایکسچینج ریٹ کو شدید دباؤ میں لے آئے گا۔ اس کے بعد ’سٹیگ فلیشن‘ (stagflation) کا ایک اور دور شروع ہو گا اور سٹیٹ بینک آف پاکستان کو پالیسی ریٹ بڑھانے پر مجبور کرے گا، جس سے اقتصادی سرگرمیاں رک جائیں گی۔

اندرونی محاذ پر پاکستان کی معیشت کو مزید وسائل کی نقل و حرکت اور نج کاری کے ذریعے مالی پہلو پر بھرپور توجہ کی ضرورت ہو گی۔ حکومت کو نہ صرف بنیادی مالیاتی سرپلس کو یقینی بنانے کے لیے بہت زیادہ آمدنی اکٹھا کرنے کی ضرورت ہو گی بلکہ غیر ٹیکس والے شعبوں کو بھی ٹیکس نیٹ میں لانا ہو گا۔

حیرت کی بات نہیں کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی جانب سے مزید ’ڈیجیٹلائزیشن‘ کے ذریعے محصولات میں اضافے کے لیے سنجیدہ کوششیں جاری ہیں۔

کیا معیشت کا جہاز ایک اور طوفان سے ٹکرانے والا ہے؟ یہ کہنا مشکل ہے، لیکن موجودہ سیاسی ماحول اور اس حکومت کے مینڈیٹ کی کمزوری اہم رکاوٹ کا باعث بنے گی۔

کچھ سرکاری ملکیت والے اداروں کو نج کاری کے لیے بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہو گی۔ چونکہ نج کاری کے محاذ پر حکومت کو کامیابی نہیں ملی ہے، اس لیے حکومت چاہے گی کہ وہ بجلی پیدا کرنے والی منافع بخش کمپنیوں جیسے اداروں کی نج کاری کر کے نج کاری کی کوششوں کو تقویت فراہم کرے۔ 

کیا معیشت کا جہاز ایک اور طوفان سے ٹکرانے والا ہے؟ یہ کہنا مشکل ہے، لیکن موجودہ سیاسی ماحول اور اس حکومت کے مینڈیٹ کی کمزوری اہم رکاوٹ کا باعث بنے گی۔ ایک طرح سے سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے اقتصادی سرگرمیاں اور محصولات کی وصولی منفی طور پر متاثر ہو گی، جبکہ ایک کمزور مینڈیٹ حکومت کو سخت اقتصادی فیصلے لینے سے روکے گا جو پاکستان کی معیشت کو کامیابی سے چلانے کے لیے درکار ہیں۔

مثال کے طور پر، حکومت زراعت جیسے ابھی تک غیر ٹیکس والے شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے سے ہچکچاہٹ کا شکار رہے گی تاکہ سیاسی عدم استحکام یا خزانے کی صفوں میں اختلاف رائے پیدا نہ ہو۔

پھر بھی پاکستان کے گورننس اداروں میں خاصی چستی اور لچک ہے کیونکہ وہ مخصوص خطرات سے نمٹنے کے لیے مہارت کو یکجا کر سکتے ہیں۔ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) نے ملک کو کووڈ-19 وبائی مرض سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے قابل بنایا، جبکہ سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) نے اہم خلیجی ممالک کے ساتھ پاکستان کے خصوصی تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے لڑکھڑاتی ہوئی معیشت کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

معاشی افق پر تاریک منحوس بادل نظر آ رہے ہیں۔ آنے والا سال پاکستان کی معیشت کے سامنے کئی بیرونی اور اندرونی چیلنجز کھڑا کرنے والا ہے۔ اپنے کمزور مینڈیٹ کی وجہ سے حکومت ان چیلنجوں سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے قابل نہیں ہو سکتی۔ بہر حال، پاکستان کے پاس ایک ٹھوس گورننس کمانڈ اینڈ کنٹرول  طریقہ کار موجود ہے جس میں مستقبل میں کسی بھی یا تمام اقتصادی چیلنجوں سے نمٹنے کی کافی صلاحیت ہے۔

(بشکریہ عرب نیوز)

کالم نگار نے حال ہی میں فل برائٹ سکالرشپ پر معیشت میں پی ایچ ڈی کی ہے۔ 

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر