امریکہ دنیا کا واحد ملک ہے جس کے صدر کا انتخاب تقریباً پوری دنیا کو متاثر کرتا ہے، نئے امریکی صدر کے آتے ہی عالمی معیشت ردعمل دیتی ہے۔
جس دن ڈونلڈ ٹرمپ الیکشن جیتے اسی دن بٹ کوائن تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا اور ایرانی کرنسی تاریخ کی کم ترین سطح پر آگئی۔
جاپان کی سٹاک ایکسچینج میں بہتری آئی اور چینی سٹاک میں منفی رجحان دیکھا گیا۔ یورپ کی سٹاک ایکسچینجز میں ملا جلا رجحان رہا لیکن میکسیکن کرنسی دو سال کی کم ترین سطح پر آگئی۔ امریکی سٹاک ایکسچینج میں بہتری آئی، امریکی ڈالر مضبوط ہوا۔
لیکن اس کے ساتھ ہی امریکہ میں آنے والے دنوں میں معاشی استحکام سے متعلق خدشات جنم لینے لگے ہیں۔ ٹرمپ نے ٹیکس کٹ اور امریکی اخراجات میں اضافے کے نعرے لگائے تھے۔ اگر ان پر عمل ہوا تو امریکی معیشت مہنگائی اور بڑے خساروں سے دوچارہو سکتی ہے۔
لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کا پاکستانی معیشت پر کیا اثر پڑ سکتا ہے؟ پاکستان میں حالات بہتر ہوں گے یا خراب؟
عارف حبیب لمیٹڈ کی ہیڈ آف ریسرچ ثنا توفیق نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کی خبر نے پاکستانی مارکیٹ پر پہلے منفی اثر چھوڑا لیکن بعد میں مارکیٹ نے مثبت اشاریے دکھائے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے بنیادی معاشی اشاریے بہتر ہیں۔ شرح سود میں کمی ہو رہی ہے، ڈالر مستحکم ہے، اکتوبر میں تین ارب ڈالر سے زیادہ ترسیلات زرموصول ہوئی ہیں، جو کہ پاکستانی تاریخ میں ماہ اکتوبر کی سب سے بڑی ترسیلات ہیں۔
گذشتہ نو ماہ میں بیرونی سرمایہ کاری تقریباً دو ارب ڈالر ہے جو 2008 کے بعد سے سب سے زیادہ ہے، پاکستانی مارکیٹ 3.9 سے 4.4 این ایس سی آئی پر آگئی ہے۔
اگر پاکستان کے معاشی اشاریے بہتر ہوتے رہے تو امریکہ میں حکومت بدلنے کے پاکستان پر مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔‘
پچھلے نو ماہ میں بھی یہ شرح برقرار ہے۔ ٹرمپ دور میں کورونا کے لیے 80 کروڑ ڈالرز پاکستان کو دیے گئے تھے۔ لیکن اس وقت امریکی افواج افغانستان میں موجود تھیں۔ اب حالات مختلف ہیں۔ سرمایہ کاری یا امداد حاصل کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔‘
ان کے مطابق ’ڈونلڈ ٹرمپ جنگوں کو ختم کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ اس سے دنیا میں امن آسکتا ہے۔ تیل کی قیمتیں مزید کم ہو سکتی ہیں اور مہنگائی کم ہونے کا فائدہ پاکستان کو پہنچ سکتا ہے۔‘
ماہر معاشیات اور سابق حکومتی مشیر ڈاکٹر فرخ سلیم نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہم پہلے یہ سمجھ لیں کہ امریکہ کو ہماری ضرورت نہیں ہے بلکہ ہمیں امریکہ کی ضرورت ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ بارود کی جنگ کے خلاف ہیں لیکن ٹریڈ وار کے بہت بڑے حامی ہیں۔ ٹرمپ کی پالیسی میں چین اور ایران کو مالی نقصان پہنچانا سرفہرست ہے۔
اگر پاکستان اس حوالے سے کچھ مدد کر سکا تو امریکی سپورٹ پاکستان کو مل سکتی ہے، بصورت دیگر ٹرمپ پاکستان میں دلچسپی نہیں لیں گے۔‘
سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلیمان شاہ نے انڈیپنڈٹ اردو کو بتایا کہ ’پاکستان کے زیادہ مسائل اندرونی ہیں۔
اگر ہماری معیشت کی سمت درست ہو تو امریکی صدر کے آنے جانے سے فرق نہیں پڑتا۔
پاکستان جاپان یا کوریا نہیں جو امریکی فیصلوں سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں نہ ہی امریکہ پاکستان میں اچھی سرمایہ کاری کرتا ہے۔ اصل فرق چین سے پڑتا ہے۔ جو سب سے بڑا سرمایہ کار ہے۔‘
کرنسی ایکسچیبج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچہ نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ٹرمپ انتظامیہ آنے کے بعد پاکستانی روپیہ مضبوط ہو سکتا ہے اور ڈالر کی قیمت کم ہو سکتی ہے۔
ٹرمپ کی اندرونی پالیسیز سے امریکہ میں مہنگائی بڑھنے کے امکانات زیادہ ہیں۔
اگر ایسا ہوا تو امریکی ڈالر کی قدر کم ہو گی۔ اس کے علاوہ پاکستان کے معاشی اشاریے بہتری کی طرف جا رہے ہیں اس سے بھی پاکستان میں ڈالر ریٹ گرنے کے امکانات ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ڈیموکریٹس ہوں یا ریپبلکن، امریکہ پاکستان کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ذریعے کنٹرول کرتا رہا ہے۔
جو بائیڈن نے آئی ایم ایف ڈیل میں پاکستان کا ساتھ دیا جب کہ ٹرمپ نے ماضی میں آئی ایم ایف ڈیل میں پاکستان کا ساتھ نہیں دیا۔
ٹرمپ انتظامیہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ذریعے پاکستان پر دباؤ بڑھا سکتے ہیں اور سخت مطالبات سامنے رکھے جا سکتے ہیں۔‘
فیڈریشن پاکستان چمبر آف کامرس کے نائن صدر ذکی اعجاز نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ڈونلڈ ٹرمپ نےامریکہ فرسٹ کا نعرہ لگا رکھا ہے اور اعلان کیا ہے کہ وہ چین سے درآمدات پر 60 فی صد اور دیگر ممالک کی درآمدات پر 10 فیصد ٹیکس لگائیں گے۔
اگر امریکہ میں پاکستانی درآمدات پر 10 فیصد ٹیکس لگ گیا تو پاکستانی ٹیکسٹائل سیکٹر کے لیے امریکہ سامان بھیجنا مشکل ہو سکتا ہے۔
پاکستان اپنی ٹوٹل برآمدات کا 20 فیصد امریکہ کو برآمد کرتا ہے۔
پہلے ہی ملک میں 125 سپننگ ملیں بند ہو چکی ہیں۔ مہنگی بجلی اور برآمدات کے لیے بین الاقوامی مارکیٹ کے مطابق ریٹ نہ ملنے کی وجہ سے یونٹس بند ہوئے۔
ان حالات میں 10 فیصد ٹیکس پاکستان کے لیے بڑا چیلنج ثابت ہو سکتا ہے۔‘
پاکستان ایران بزنس کونسل کے چیئرمین نجم الحسن جاوا نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ایران نے پاکستان کو گیس پائپ لائن منصوبے میں 18 ارب ڈالرز جرمانے کا نوٹس بھیج رکھا ہے۔
پرویز مشرف اور آصف علی زرداری نے امریکہ سے اجازت لے کر اس منصوبے پر کام شروع کروایا تھا۔ اس کے بعد کسی نے دلچسپی نہیں لی۔ اگر پاکستان کوشش کرے تو یہ منصوبہ بحال ہو سکتا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان نے برکس کا ممبر بننے کی درخواست کر رکھی ہے۔
بھارت کو بھی اس پر اعتراض نہیں۔ برکس اپنی کرنسی متعارف کروانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ امریکی ڈالر اور ٹرمپ انتظامیہ کے لیے بڑا چیلنج ہو گا، جس کا فائدہ پاکستان کو پہنچ سکتا ہے۔‘