پاکستانی فلمی صنعت اور سینیما جانے کا رجحان دہائیوں سے ایک جمود کا شکار ہے، یہ صورت حال یہاں تک کیسے پہنچی، یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
پاکستان میں فلم انڈسٹری کی بنیاد رکھنے والوں میں بڑا نام ستیش آنند کے والد جناب جے سی آنند کا ہے، انہوں نے نہ صرف پروڈکشن کا میدان مارا، بلکہ فلموں کی ڈسٹری بیوشن اور ان کی فنانسنگ کو بھی پروان چڑھایا۔
تقسیم کے بعد جے سی آنند نے ملک چھوڑ کر جانے کے بجائے اپنی زمین سے جڑے رہنے کو ترجیح دی لیکن اس وقت زیادہ فلمیں بمبئی میں ہی بن رہی تھیں اور ڈسٹری بیوٹرز وہاں سے فلمیں لا کر پاکستان میں ریلیز کیا کرتے تھے۔
جے سی آنند نے پاکستان میں ’برسات‘ اور ’بیجو باورہ‘ جیسی سپر ہٹ فلمیں ریلیز کیں۔
یہ وہی دور تھا جب آغا جی اے گل صاحب نے بھی انڈیا سے فلمیں لا کر یہاں ریلیز کیں اور سرمایہ بنایا۔ اسی دوران جے سی آنند نے پاکستان کی پہلی فلم ’سسی‘ 1950 کے اوائل میں بنانا شروع کی۔
’سسی‘ پاکستان کی پہلی گولڈن جوبلی ہٹ فلم تھی، اور یوں جے سی آنند سینیما ڈسٹری بیوٹر ہی نہیں بلکہ فلم پروڈیوسر بھی کہلائے جانے لگے۔
اسی طرح ان کے ہم عصروں آغا گل اور فلم اداکار وحید مراد کے والد نثار مراد نے بھی ’پاکستان فلمز‘ کے نام سے فلم پروڈکشن میں قدم جما لیے۔ یہ سبھی سماجی طور پر با اثر لیکن ایک دوسرے کے حریف تھے۔
آغا جی اے گل کے صاحبزادے سجاد گل نے پاکستانی سینیما کے عروج و زوال پر روشنی ڈالتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پاکستان کے قیام کے بعد 1950 کی دہائی سے ملکی سینیما کے لیے سنہری دور تھا لیکن سقوط ڈھاکہ نے اس کو جو ٹھیس پہنچائی، وہ ناقابل تلافی رہی۔
ان کے بقول، ’پاکستان کی فلم انڈسٹری کا 50 فیصد ایسٹ پاکستان سے آتا تھا، چاہے وہ لکھاری ہوں، موسیقار، اداکار یا ٹیکنیشنز، سبھی ایسٹ پاکستان سے تھے۔‘ لیکن سقوط ڈھاکہ کے بعد منظر بدل گیا اور سینیما کی جڑیں ہل گئیں۔
سجاد گل کے بقول، ’اردو سینیما ختم ہوا اور ریجنل سینیما نے جگہ لے لی، اور پنجابی فلموں کی بھرمار سامنے آئی۔‘
سقوط ڈھاکہ سے قبل سینیما میں لوگوں کے لیے کام اور پیسہ کمانے کے مواقع تھے، ملکی معیشت پھل پھول رہی تھی۔ لکھنے والوں، میوزک بنانے والوں، اداکاروں، سبھی کے لیے مالی طور پر فائدہ تھا۔
لیکن سجاد گل کا ماننا ہے کہ سقوط ڈھاکہ اور پھر جنرل ضیا کے دور میں ’بنیاد پرستی‘ کے بڑھتے رجحان نے لکھنے پڑھنے والے ’کری ایٹو‘ لوگوں کو اپنا پیشہ بدلنے پر مجبور کیا۔ کوئی ملک سے باہر چلا گیا اور کسی نے ’ایڈورٹائزنگ‘ میں جگہ بنائی۔
اداکارہ زیبا بختیار سے جب اسی موضوع پر رائے لی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ 70 اور 80 کی دہائی میں پاکستانی سینیما بہت اچھا تھا لیکن جنرل ضیا کے دور اور اس کی مخصوص سوچ اور سوچ پر پابندی نے پاکستانی فلمی صنعت کو نقصان پہنچایا۔
ان کے بقول، ’سینیما کے لیے کہانیوں کی کمی نہیں، لیکن انٹیلکچوئل انداز میں جو لہر چل رہی ہے، وہ کری ایٹو سے زیادہ ایک مخصوص چلن کے ماننے والوں کی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستانی ہدایتکار ندیم بیگ، جو ’پنجاب نہیں جاؤں گی‘، ’دل لگی‘ اور ’جوانی پھر نہیں آنی‘ جیسی سپر ہٹ فلمیں دے چکے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ٹیکنالوجی نے بھی سینیما جانے کے ٹرینڈ کو ٹھیس پہنچائی، جس میں سرِفہرست ’وی سی آر‘ کا دور تھا۔
ندیم بیگ موجودہ دور میں سینیما کے معدوم ہوتے رجحان کو عالمی سطح پر بھی مدھم ہی دیکھ رہے ہیں۔ ان کے بقول، اب سب کچھ ’یوٹیوب اور دیگر پلیٹ فارم‘ پر دیکھا جا سکتا ہے۔
پاکستانی سینیما اور ڈراموں کو پڑوسی ملک انڈیا میں کافی پذیرائی حاصل ہے۔ سینیما کے حوالے سے پاکستان کو اپنی تخلیقی خوبیوں کو مدنظر رکھ کر چلنا ہوگا۔
ندیم بیگ کے مطابق، پاکستان میں فلم بنانے کے لیے بھی بجٹ ہونا چاہیے اور فلم دیکھنے کے لیے بھی۔ جب سینیما ہاؤسز کم ہوں گے تو ان کے چارجز بھی زیادہ ہوں گے، اور جو فلم دیکھنے جانا چاہے گا، وہ پھر ’آؤٹ آف دی باکس‘ دیکھنا بھی چاہے گا۔
’جہاں تک سینیما کا ٹکٹ لے کر فلم دیکھنے کی بات ہے تو اس کے لیے سنیمیٹک ایکسپیرینس یا ماحول ضروری ہو گیا ہے۔‘
رہی بات رومانوی یا کسی مخصوص موضوع پر بنی فلم دیکھنے کی، تو اس کے لیے او ٹی ٹی موجود ہے۔ لوگ جب چاہیں گھر بیٹھے ایسی فلمیں اپنی سکرین پر دیکھ سکتے ہیں۔
موجودہ دور میں پاکستانی سینیما کی جڑیں از سر نو کیسے مضبوط کی جائیں، تو زیبا بختیار صاحبہ کا ماننا ہے کہ ’سینیما کو سرکاری سطح پر ایک بورڈ کی ضرورت ہے۔
ایسی فلمیں بنائی جائیں جو مثبت اور اچھے موضوعات پر مبنی ہوں۔ انٹرنیشنل سینیما اب نیٹ فلکس پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔‘
اس کے علاوہ فلم ڈسٹری بیوٹر اور پروڈیوسر کے منافعے میں تناسب لانے کی ضرورت کو بھی اہم سمجھنا چاہیے۔ بزنس کے پیرائے میں بھی اس صنعت کو توجہ کی ضرورت ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔