سر سلامت جوتے بہت

پالش والے چمکتے کالے اور براؤن جوتے آج کل فلموں یا انسٹاگرام پہ ہی نظر آتے ہیں ورنہ اب کے نوجوانوں اور میری عمر کے لوگوں میں سب سے بڑا فرق اگر آپ سوچیں تو جوتوں کے رنگ کا ہے۔

25، 26 سال کے وہ ٹرکش نوجوان صاحب فرش پہ بیٹھے اپنے جوتے پالش کر رہے تھے اور میں ایک دم خوشگوار حیرت سے انہیں دیکھ رہا تھا۔

میں نے پوچھا کہ یار آپ اچھے خاصے ترقی یافتہ ملک کے تقریباً جین زی بچے ہیں، نوجوانوں والی ہی آپ کی ڈریسنگ ہے لیکن صبح صبح جوتے پالش کرنے کی یہ کیا سنک آئی آپ کو؟ اور پالش، برش یہ کہاں سے ملے؟ سامان میں ساتھ لائے تھے کیا؟

کہنے لگے کہ اس معاملے میں ابا بہت سخت تھے، یہ عادت بچپن سے انہوں نے ڈالی تھی، تو اب بس کہیں بھی نکلنے سے پہلے یہ کام لازمی دماغ پہ سوار ہوتا ہے، اور کچھ نہیں تو کپڑا ضرور مارتا ہوں۔

جس فلیٹ پر میں ہوں وہیں یہ نوجوان بھی تین چار دن کے لیے مقیم تھے، آئے، چلے گئے، لیکن دماغ پر ایسا نقش چھوڑ گئے کہ اب لاکھ یاد کرتا ہوں چہرہ یاد نہیں آتا، چمکتے براؤن جوتے یاد ہیں۔

قصہ یہ ہوا کہ سکول کالج کے زمانے میں مجھے لگتا تھا جیسے میلے جوتے فیشن ہیں، مجال ہے کبھی جو ہلکا سا کپڑا بھی مارا ہو لیکن ابا، وہ غریب بہت ناراض ہوتے تھے، ان کے ساتھ کہیں جانا ہوتا تو وہ خاص طور پہ نظر رکھتے کہ اس نے جوتے صاف کیے ہیں یا نہیں؟ پھر نوکری شروع ہوئی تو خود بخود عقل آتی گئی، جوتے بھی صاف رہنے لگے لیکن اب ۔۔۔ شارٹ موزوں اور بغیر جراب جوتوں کے اس دور میں پالش کرتے وہ بھائی صاحب مجھے صحیح طریقے سے ہلا گئے تھے۔

اپنی بیٹی کو میں دیکھتا ہوں، اس کی پتلون کے پائنچے جوتوں کے نیچے آ رہے ہوتے ہیں، جوگرز ہوں تو وہ عین ویسے ہوتے ہیں جیسے میرے ہوتے تھے، لیکن اسے میں کچھ نہیں کہتا، ہنستا ضرور ہوں، ہنستا اس لیے ہوں کہ وہ کوفت یاد آتی ہے جو ابا بے چارے کو مجھے دیکھ کر ہوا کرتی تھی، اور کچھ بھی اس لیے نہیں کہتا کہ تھوڑی اور بڑی ہو گئی تو یہ مزے بھی ختم ہو جائیں گے۔

صاف جوتا نارمل دنیا میں ایک مجبوری ہے۔ نوکری، شادی، دعوت، میٹنگ، عید، فنکشن، تیمار داری، کاروبار، میل ملاقات، جدھر بھی دوسرے لوگوں سے آپ ملنے جائیں گے پہلی چیز اس میں کم بخت جوتا ہے جو اپنا آپ دکھائے گا اور اسے آپ کو خواہ مخواہ صاف رکھنا ہی پڑے گا۔

پالش والے چمکتے کالے اور براؤن جوتے آج کل فلموں یا انسٹاگرام پہ ہی نظر آتے ہیں ورنہ اب کے نوجوانوں اور میری عمر کے لوگوں میں سب سے بڑا فرق اگر آپ سوچیں تو جوتوں کے رنگ کا ہے۔

ہمارے زمانے میں سفید جوتے مائیکل جیکسن، جیتیندر، گووندا یا متھن چکرورتی کے علاوہ کھیپیے (جہازوں پہ چھوٹا موٹا سامان ادھر اُدھر لے جانے والے معصوم سمگلر) پہنا کرتے تھے، پھر نوجوانی کے ٹائم نائیکی کے مائیکل جارڈن پاکستان میں نظر آنا شروع ہوئے لیکن تب جیب اجازت نہیں دیتی تھی اور ویسے بھی اتنا بڑا سفید جوتا کدھر سمجھ میں آتا؟ اپنا آپ بینڈ ماسٹر لگتا تھا پر اب ۔۔۔

اب سفید جوتے نئی نسل کا پہلا نشان ہیں۔ اب کوئی بینڈ ماسٹر نہیں لگتا، اب مائیکل جیکسن بھی یاد نہیں آتا، کھیپیے اب کالے جوتے پہننا شروع ہو گئے ہیں، کینوس شوز کی شکل میں سب کچھ بدل چکا ہے لیکن ایک روایت وہیں کھڑی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جو مرضی کر لیں جوتا صاف ہونا اب بھی ضروری ہے۔ سفید ہو، آتشیں گلابی یا پیلا ہی کیوں نہ ہو، جوتا صاف نہیں ہو گا تو اپنے ہم عمروں میں تو بچے شاید گھل مل جائیں گے لیکن جہاں ذرا سا بھی پروفیشنل دنیا کا تعلق ہو گا، بھلے بالکل ہلکا سا ہو، ترچھی نظریں اب بھی جوتوں پہ جائیں گی ہی جائیں گی۔

تو وہ جو فلیٹ پہ ترک نوجوان کو دیکھ کے حیرت ہوئی تھی مجھے، اس کی وجہ اصل میں یہ تھی کہ ہر ماہ، کم از کم ایک چھٹی کا دن ایسا ضرور ہوتا ہے جب میں اپنے جوتوں میں گھرا بیٹھا ہوتا ہوں اور چاہے وہ جتنے بھی پرانے ہوں، میلے ہوں، انہیں تمیز سے صاف کر کے، باقاعدہ شاپر چڑھا کے مقررہ جگہ پہ ضرور رکھتا ہوں۔

دس بارہ سال سے یہ اپنی روٹین ہے، پہلے جب میں ایسا کرتا تھا تو صرف ابو کا خیال آتا تھا اور میں سوچتا کہ یار اگر یہی کام تیس سال پہلے شروع کر دیتا تو کیا جاتا، اب مجھے لیکن وہ بھائی صاحب بھی یاد آتے ہیں اور میں ہمیشہ ہنس دیتا ہوں کہ اس دنیا میں اکیلا میں ہی خبطی نہیں ہوں، کم از کم ایک نمونہ دوسرا ایسا موجود ہے جو فوجی بھی نہیں لیکن چمکتے جوتوں کا شوق بھی رکھتا ہے۔

ایک چیز رہی جاتی ہے، میں اب بھی کسی نوجوان کو ہرگز نہیں کہوں گا کہ جوتے روز پالش کریں، انہیں ضرور صاف رکھیں، مٹی میں اٹے جوتے اچھا تاثر نہیں چھوڑتے ۔۔۔ نہ ۔۔۔ یہ میرا کام نہیں ہے، مجھے تب سمجھ نہیں آئی تو انہیں اب کیسے آ سکتی ہے؟

سمھجھ کا معاملہ بڑا نازک ہے، اسے اپنے وقت پہ آنا ہوتا ہے، جب تک وقت نہیں آتا تب تک لاکھ جتن کر لے بندہ، کوئی فرق نہیں پڑتا۔

باقی خیر ہے، امی ایک ہندکو محاورہ بولا کرتی تھیں، سر سلامت جوتے بہت، اسے جن مرضی معنوں میں سمجھ لیجے۔ اجازت دیں!

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ