بی یور سیلف ۔۔۔ پر کتھوں؟

بی یور سیلف کا مطلب تو یہ ہوا کہ جو کچھ آپ سوچتے ہیں، وہی سب آپ کرتے بھی رہیں، لیکن دماغ میں جو کچھ چل رہا ہوتا ہے کیا اس کا ایک فیصد بھی زندگی بھر میں آپ کر پاتے ہیں؟

انسان کی جو اصل ہو اسے ویسے ہی رہنا چاہیے، سیانے کہہ گئے تھے بی یور سیلف ۔۔۔ لیکن یہ کافی زیادہ مشکل کام نہیں ہے؟

بی یور سیلف کا مطلب تو یہ ہوا کہ جو کچھ آپ سوچتے ہیں، وہی سب آپ کرتے بھی رہیں، لیکن دماغ میں جو کچھ چل رہا ہوتا ہے کیا اس کا ایک فیصد بھی زندگی بھر میں آپ کر پاتے ہیں؟

میرا خیال ہے اس سے مراد یہ ہو گی کہ انسان اپنے لیے سہولت ڈھونڈے، جو کام اسے بہتر لگتا ہے وہ کرے، جو لباس پسند ہے وہ پہنے، جو کاروبار سمجھ آتا ہے وہ کرے یعنی طبیعت سے جو چیز میچ کر رہی ہے بس وہ سب کچھ کیا جائے۔

ہم لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جو امیر لوگ ہیں ان کے پاس چوائس کا اختیار ہم سے زیادہ ہوتا ہے، یعنی وہ ’بی یور سیلف‘ کے معیار پہ ہم سے بہتر اتر سکتے ہیں لیکن ان کی زندگیوں میں بھی تھوڑا جھانک کر دیکھیں تو ایسا نہیں ہے۔

فرض کریں آپ ایک پیسے والے گھر میں پیدا ہوئے، اندرون کراچی رہتے ہیں، سارا خاندان کاروبار کرتا ہے اور بیچ میں آپ چاہتے ہیں کہ فلم بنانے کی ڈگری لیں تو کیا وہ سیٹھ والد آپ کو اس میدان میں اترنے کی اجازت دیں گے جنہوں نے ساری زندگی چشموں کا بزنس کیا ہے؟ جن کی عمر گزر گئی روزانہ مال منگوانے اور آگے بڑھانے میں، پھر انہی پیسوں سے آپ کو زندگی کی ہر سہولت دینے میں، وہ کیوں چاہیں گے کہ آپ ایک گھاٹے کا سودا کر لیں؟

اب اس موڑ پہ دوسری قسم والے سیانے آ جائیں گے، وہ کہیں گے کہ انسان کو بڑوں کے تجربے سے سیکھنا چاہیے، وہ ہمیشہ آپ کی بھلائی کے لیے بات کر رہے ہوتے ہیں، اس میں بھی دو تین اقوال زریں لے آئیں گے لیکن سوال یہ ہے کہ باوجود تمام تر پیسوں کے، آپ کی مرضی کدھر گئی؟

ایک فیصلہ جس نے آپ کی ساری زندگی کا انداز طے کرنا ہے، وہ آپ خود نہیں  کر پائے تو کیسے آپ اپنی اصل کے مطابق ساری زندگی رہ سکیں گے؟ ایک انسان جسے فلم بنانی تھی، سوپر ہٹ مکالموں کی دنیا میں رہنا تھا، وہ ایک غلط یا صحیح موڑ کے بعد چشمے بیچتا رہے گا؟ اس دکانداری میں وہ کتنا بیئنگ ہم سیلف ہو سکے گا؟ ٹھیک ہے پیسے کمائے گا، ہر ممکن اپنی مرضی کی دنیا بنانے کی جدوجہد بھی شاید کرے گا لیکن کیا وہ اپنی اصل کے مطابق زندگی گزار سکے گا؟

اب فرض کر لیں کہ آپ کو گھر سے اجازت مل گئی، آپ نے فلم میکنگ پڑھ لی، بیرون ملک گئے آپ، چھ سال لگائے، اعلیٰ ترین ڈگری حاصل کی اور ’اپنے ملک کی خدمت‘ کرنے وطن واپس آ گئے۔ یہاں آ کے آپ نے مارکیٹ کا منہ دیکھا، سپانسر ڈھونڈے، تکنیکی حالات پہ غور کیا، جیسے تیسے کر کے دو تین فلمیں بنائیں جن میں زیادہ تر خود اپنا پیسہ تیل کیا اور اس کے بعد تھک ہار کے سائیڈ پہ ہو گئے۔

اس ناکامی کے بعد کیا آپ رسک لیں گے مزید ’بی یور سیلف‘ قسم کا؟ شاید نہیں، آپ کے لیے زندگی چلانا بھی مشکل ہو جائے گی، تب کیا کریں گے آپ؟ واپس کاروبار، وہی ابا والا؟ ٹھیک ہو گیا، لیکن ترنگ کدھر گئی وہ والی کہ اپنی اصل کے مطابق رہنا ہے؟

اسی طرح وہ بچے ہوتے ہیں جن کے جنسی میلانات عام انسانوں جیسے نہیں ہوتے۔ ایک ویڈیو کل دیکھ رہا تھا جس میں بہت سریلی قسم کی آواز میں اور بہت خوش چہرے کے ساتھ ایک ماں کوئی گانا گا رہی ہوتی ہے اور پیچھے تین چار سال کا بچہ جس نے گلابی رنگ کے کپڑے پہنے ہوتے ہیں، وہ ڈانس کر رہا ہوتا ہے۔

اس کا ڈانس ایسا تھا جیسا عام طور پہ اس عمر میں لڑکے نہیں کر سکتے، لچک تھی، بے ساختہ پن تھا اور ایسا تھا کہ میں نے فوراً کمنٹس پہ نظر ڈالی۔ جیسا میں سوچ رہا تھا عین ویسے ہی کمنٹس تھے۔ مذاق در مذاق در مذاق، صرف اس چیز کے حوالے سے کہ وہ بچہ بڑا ہو کے اپنی جنس کے مطابق رویہ نہیں رکھے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس دنیا میں کیا اس سے بڑا ظلم کچھ ہو سکتا ہے کہ آپ جس شکل میں پیدا ہوں، اندر آپ کا دماغ اسے قبول ہی نہ کرتا ہو؟ ایسے بچے اگر ’بی یور سیلف‘ والی بات مان لیں تو اسی طرح ساری دنیا کی نفرت کا نشانہ بنتے ہیں اور اگر نہ مانیں تو گویا ایک عورت اپنے چہرے پہ ایک مرد کی شکل کا ماسک چڑھائے زندگی گزار دے گی، حل کیا ہے؟

آپ سمیت پوری دنیا کے اس سب سے بڑے مسئلے یعنی مرضی کی زندگی گزار پانے کے لیے حل کیا ہے؟

جیسے ہیں ضرور کوشش کریں کہ ویسے بن کے رہیں لیکن یہ سوچیں کہ اس دنیا میں جتنے بھی لوگ آپ کے آس پاس ہیں ان کا بھی اپنی زندگیوں پہ حق ہے۔ وہ بھی چاہتے ہیں کہ اپنی اصل کے مطابق رہ سکیں لیکن جانے انجانے میں صرف آپ ہی کی وجہ سے کئی زندگیاں ایسی ہوں گی جو تمام عمر اپنی مرضی سے ہٹ کے ایک روٹین میں بندھی ہوں گی۔

آپ کا رول اپنی زندگی میں اسی کاروباری باپ کا ہو سکتا ہے، آپ وہ فلم میکنگ والے بچے بھی ہو سکتے ہیں، انسٹا پہ گانا گاتی ماں بھی آپ ہو سکتے ہیں اور وہ بچہ بھی کیا خبر آپ ہوں، کیا پتہ میں بھی آپ ہی ہوں، لیکن کون کتنا اپنی اصل پہ ہے اور ہم اسے کتنی سہولت خود سے دے سکتے ہیں، اصل کام یہ سوچنا ہے۔

اور سوشل میڈیا پہ تو یار بہت رعایت والا رویہ رکھیں، زندگی میں نہ سہی، اگر کیمرے پہ ہی کوئی اپنا پسندیدہ کام کرنا چاہتا ہے تو اسے کرنے دیں، اس کی حوصلہ افزائی کریں، ورنہ کم از کم کچھ بھی نہ کریں ۔۔۔ آپ کا ایک ہیٹ کمنٹ کسی کو ساری زندگی کے لیے ڈی ٹریک کر سکتا ہے ۔۔۔ لیکن بات سمجھنے کی ہے ورنہ آپ کی دنیا میں سب ایک دوسرے کے خوف سے اسی طرح نقاب اوڑھے گھومتے رہیں گے۔

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ