کیا ہاسٹل کی زندگی سے بچے خوار ہوتے ہیں؟

جو آپ نے بھیجا تھا وہ ایک ہنستی کھیلتی بے فکری سی اولاد تھی اور جو واپس آتا ہے وہ ایک لاتعلق، اجنبی اور اپنی دنیا میں رہنے والا انسان ہوتا ہے۔ آپ لاکھ چاہیں کہ جیسے دوسرے بچے ہوتے ہیں وہ اس طرح ہو جائے، یہ اب ہو نہیں سکے گا۔

رونگٹے کھڑے ہوگئے میرے جب انہوں نے کہا کہ میں اپنے ’ابا کے مر جانے یا گاڑی کے ایکسیڈنٹ کی دعائیں کرتا تھا۔‘

نام نہیں لکھوں گا، دوست ہیں، نوجوان ہیں، قابل آدمی ہیں، پھر کہنے لگے ’آپ حیران ہوں گے کہ اپنے باپ کے لیے کوئی مرنے کی دعائیں کیسے کر سکتا ہے؟‘

ظاہری بات ہے پہلا تاثر میرا حیرانی کا تھا، پھر خوف اور اس کے بعد پریشانی تھی۔ کہا بالکل، حیران ہوں۔

’حسنین بھائی لیکن کوئی یہ جاننے کی کوشش کیوں نہیں کرتا کہ آخر ایک ننھے بچے کو ایسی دعا کرنے کی ضرورت ہی کیوں پڑی؟ اس کا دل باپ کے خلاف نفرت سے کیوں بھر گیا؟ بچے کی نفسیات دیکھیں تو اندازہ ہو گا کہ بے جا مار دھاڑ، سختی یا اس بچے کا بچپن چھین لیا جانا، انتہائی خطرناک اثرات مرتب کرتے ہیں اس کے دماغ پر۔

لیکن ہمارے یہاں اس پہ سوچا جاتا ہے اور نہ کوئی تحقیق ہوتی ہے۔‘

پتہ ہے وہ بات کیا کر رہے تھے؟ بچپن میں جب انہیں ہاسٹل بھیجا جاتا تھا تو ان پر کیا گزرتی تھی۔

یہ سب ڈائیلاگ ستانوے فیصد انہی کے ہیں، دو چار جگہ روانی کے لیے سیدھا کیا ہے جملوں کو، کوئی تین سال پہلے انہوں نے مجھے کہا تھا کہ اس موضوع کو ضرور چھیڑیے گا۔

ڈسپلن، روشن مستقبل کا لالچ یا گھر میں وسائل نہ ہونا، ان تین وجوہات پر بچوں کو چھوٹی عمر میں ہاسٹل بھیجا جاتا ہے جو میرے خیال میں سو فیصد ظلم ہے! اس بارے میں یقینا ایک بڑی تعداد کے لوگوں کی رائے مختلف ہوسکتی ہے۔

البتہ محدود تجربہ ہے، اپنی آنکھ سے دیکھتا ہوں، کم انسانوں سے ملا ہوں گا لیکن جتنے بھی لوگ بچپن میں ہاسٹل جاتے دیکھے ان میں بہت کم ایسے ہیں جو واپس آ کے گھر دوبارہ رہ سکے ہوں۔

سب ختم ہو جاتا ہے، رشتے باقی رہتے ہیں لیکن بچہ بالکل استری ہو چکا ہوتا ہے، جو آپ نے بھیجا تھا وہ ایک ہنستی کھیلتی بے فکری سی اولاد تھی اور جو واپس آتا ہے وہ ایک لاتعلق، اجنبی اور اپنی دنیا میں رہنے والا انسان ہوتا ہے۔

آپ لاکھ چاہیں کہ جیسے دوسرے بچے ہوتے ہیں وہ اس طرح ہو جائے، یہ اب ہو نہیں سکے گا۔ آپ بھلا چاہتے تھے بچے کا، وہ ہو گیا، لیکن یہ سب کچھ اس کے ساتھ جڑ گیا اور جڑا رہے گا۔

یک طرفہ سا لگ رہا ہوں گا آپ کو؟ بھئی میرا خود سب سے بڑا خوف یہی ہوتا تھا جب آخری ہتھیار کے طور پہ امی کہتی تھیں کہ ’ہاسٹل بھیج دیں گے۔‘ یہ دھمکی ہوتی تھی ہمیشہ، اور بالکل زچ ہو کے جب مجھے سٹور میں بند کر دیتی تھیں اس کے بعد باہر سے بولتی تھیں۔

لیکن قسم خدا کی، سٹور کے جن بھوتوں سے میں اتنا نہیں ڈرتا تھا جتنا ماں باپ کے بغیر زندہ رہنے سے خوف آتا تھا۔

میں تو وہ بچہ تھا جس نے ساری زندگی دعا مانگی کہ ’اماں ابا کو خدا نہ کرے کچھ ہو، پہلے میں جاؤں دنیا سے۔‘ تو مجھے اس بچے کی بات کیوں نہیں سمجھ آئے گی جسے آپ نے ہاسٹل بھیج دیا اور یا مدرسے میں ڈال دیا؟ اس کا خوف، اس کا دکھ، اس کی اذیت آپ یا میں کیسے نظر انداز کر سکتے ہیں؟

تین سال پتہ ہے کیوں لگے لکھنے میں؟ صرف یہی سوچ کہ یار کہیں میں غلط نہ ہوں، ابھی کل پرسوں ملتان سے ایک دوست کا فون آ گیا، انہوں نے بھی ایسا ہی ایک مشورہ چاہا، اتنی ہی شدت سے درخواست کی ان سے بھی، کہ جو مرضی کر لیں یہ ہاسٹل والا سین مت کریں۔

اور تب سوچا کہ اب موضوع نہیں ٹالنا، دو چار بچوں کے والدین کو بھی سمجھ آ گئی تو زندگیاں شاید بچ جائیں، بچپنے محفوظ رہ جائیں، کھلنڈرا پن برقرار رہ جائے اور خدا کرے کہ ایسا ہو۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ابھی گہرائی میں جا کے بات نہیں ہو رہی، وہ جگہ جہاں سب نوعمر بچے ہوں اس کے متعلق بغیر حوالہ دیے کچھ کہنا بھی مناسب نہیں لیکن کئی چیزیں مشترک ہیں، خبروں میں بھی آتی ہیں، ہر قسم کی بدسلوکی ممکن ہے، ذہنی دباؤ ہے، دوسرے بچوں کی طرح آزادی کا نہ ہونا ہے اور بے تحاشا دوسرے مسئلے ہیں جنہیں صرف ایک سوال کے جواب سے باآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ کیا آپ جیل جانا پسند کریں گے؟

جہاں اکٹھے کھانا پینا سونا جاگنا ہو، واش روم کے لیے لائنیں ہوں، کوئی موبائل فون نہ ہو، ہفتے یا مہینے بعد گھر بات کرنے کی اجازت ہو، کپڑے خود دھونے ہوں، منہ زور قیدیوں کی بدتمیزی برداشت کرنا ہو، جیلر کو خوش رکھنا ہو، اپنی مرضی نام کی چڑیا پر نہ مارتی ہو، ٹی وی دیکھنے کے لیے بھی وقت مقرر ہو ۔۔۔ آپ بے روزگار بھی ہوں تو ہرگز نہیں چاہیں گے۔ کوئی بچہ کیسے چاہ سکتا ہے؟

مجھے یاد ہے ایک چوکیدار تھا ہمارے محلے کا، 2010 میں اس نے دوسری شادی کی تو پہلی بیوی سے جو بچہ تھا اسے ایک مذہبی سکول بھیج دیا، وہ خود کہتا تھا کہ ’مجھ سے ایک آنہ بھی نہیں لیا کسی نے اور ثواب کا ثواب ہے۔‘

میں نے صرف یہ دیکھا کہ وہ غریب چھ سال کا بچہ، ایک مہینے بعد ایک دن کے لیے آتا تھا۔ تیر کی طرح سیدھا، سنجیدہ اور مجال ہے جو منہ سے اونچی آواز نکلتی ہو۔  اللہ جانے اب کیسا ہو گا، لیکن اس سے کون پوچھے گا کہ تیرے ساتھ کیا ہوا بیٹے؟

سب نے وہ نوجوان دیکھنا ہے جو وقت نے بنا دیا۔ اچھا بنا یا برا ۔۔۔ پیچھے جا کے کوئی نہیں دیکھے گا بلکہ شاید اسے بھی کبھی اندازہ نہ ہو کہ میں کیا ہو سکتا تھا اور میں کیا ہوں!

پراسپیکٹس، ہاسٹلوں کے خوش نما بروشر، ویب سائٹس، وہاں صرف پوز بنا کے ہنستے مسکراتے بچے ہوتے ہیں، ان کی ہر دلیل بچے کے ’بہترین مستقبل‘ سے شروع ہو کے وہیں ختم ہوتی ہے۔ فیصلہ آپ خود کریں، اگر اچھا حال دے سکتے ہیں تو کیا بہترین مستقبل کی امید اچھا حال دینے والے سے نہیں لگائی جا سکتی؟

آخری بات، کہ یہ تحریر چار سے بارہ سال تک کی عمر سے متعلق ہے، بچہ نام خدا بڑا ہو گیا، سولہویں اٹھارہویں برس میں آ گیا، تب بسم اللہ کیجے، وہ خود چاہتا ہے تو جہاں مرضی داخل کروایے، اللہ بہتری کرے گا۔

یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ