بریگزٹ ’مکمل‘ ہونے کے پانچ سال گزر چکے ہیں، لیکن برطانوی ووٹرز اور سیاست دان آج بھی اس کی قیمت کا حساب لگا رہے ہیں۔
برطانوی عوام نے آج سے پانچ سال پہلے 31 جنوری 2016 کو ایک تاریخی ریفرنڈم میں 48 فیصد کے مقابلے میں 52 فیصد ووٹوں سے یورپی یونین سے نکلنے کا فیصلہ کیا، جس کے نتیجے میں وزیرِاعظم ڈیوڈ کیمرون کو مستعفی ہونا پڑا۔ اس کے بعد 31 جنوری 2020 کو برطانیہ نے باضابطہ طور پر یورپی یونین سے علیحدگی اختیار کی، اور اس کے جنوری 2021 تک ایک عبوری دور جاری رہا۔
بریگزٹ کے حامیوں نے برطانوی خودمختاری کے ایک نئے دور، امیگریشن پر سخت کنٹرول، اور متنازع ’فی ہفتہ 35 کروڑ پاؤنڈ‘ کی بچت کا وعدہ کیا، اور کہا گیا تھا کہ یہ یورپی یونین سے نکال کر یہ پیسہ نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) میں لگایا جائے گا۔
لیکن پانچ سال گزرنے کے بعد بریگزٹ متعدد حوالوں سے اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام نظر آتا ہے۔
بریگزٹ کی معاشی لاگت کا تعین ابھی کیا جا رہا ہے، لیکن حکومتی واچ ڈاگ کے مطابق طویل مدت میں برطانوی معیشت کو تجارت کے حوالے سے 15 فیصد نقصان پہنچے گا، جبکہ ماہرین کا اندازہ ہے کہ برطانیہ ہر سال 100 ارب پاؤنڈ کے پیداواری نقصان کا سامنا کر رہا ہے۔
جب سے برطانیہ یورپی یونین سے الگ ہوا ہے، امیگریشن کی سطح ریکارڈ بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے، جبکہ کئی اہم شعبے عملے کی قلت کا شکار ہیں۔
اکتوبر میں کیے گئے ایک YouGov سروے کے مطابق، تقریباً 59 فیصد برطانوی شہریوں کا خیال ہے کہ بریگزٹ کا نتیجہ ’کافی حد تک‘ یا ’انتہائی خراب‘ رہا، جبکہ صرف 12 فیصد کا خیال ہے کہ یہ ’اچھا‘ رہا ہے۔
برطانیہ کے تجارتی امور کے ماہر ڈیوڈ ہینیگ نے دی انڈپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے کہا:’اب برطانیہ کو اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ بڑی تجارتی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ ہمیں اس حقیقت کے ساتھ جینا ہو گا، ہم اسے بھول نہیں پائیں گے۔ یہ مسئلہ ہمیشہ رہے گا۔‘
معروف ماہرِ معیشت اور بریگزٹ کے حامی جولیان جیسپ نے تسلیم کیا کہ بریگزٹ نے چھوٹے کاروباروں کے لیے حالات مشکل، بلکہ ’ناممکن‘ بنا دیے ہیں۔
انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا:’بریگزٹ کے باعث برطانوی معیشت پر بلاشبہ منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں، خاص طور پر تجارت میں کمی ہوئی ہے، کاروباری سرمایہ کاری میں کمی ہوئی ہے، اور مزدور مارکیٹ میں ہلچل کی مچی ہے۔‘
تاہم انہوں نے یہ بھی کہا: ’برآمدات اور درآمدات پر مجموعی دباؤ اتنا زیادہ نہیں جتنا ابتدا میں خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا۔‘
برطانیہ کے سابق نائب وزیرِاعظم لارڈ ہیسلٹائن نے کہا کہ تقریباً پانچ سال گزرنے کے بعد، بریگزٹ ’تاریخی تباہی‘ ثابت ہوا ہے۔
انہوں نے کہا: ’اس نے یورپ میں برطانیہ کی قیادت کو تباہ کر دیا، ایک ایسے وقت میں جب اس کی اشد ضرورت تھی۔ اس نے نوجوان نسل کو یورپ کے مواقع سے محروم کر دیا اور برطانوی صنعت کو یورپی تحقیق اور پالیسیوں تک رسائی سے بھی محروم کر دیا۔ ہماری معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے، اور کوئی بھی مستند ادارہ اس حقیقت سے انکار نہیں کرتا۔
’برطانوی عوام جان چکے ہیں کہ انہیں دھوکہ دیا گیا تھا، اور اس دھوکے کا خمیازہ انہیں گرتے ہوئے معیار زندگی کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔‘
نیچے دیے گئے اعداد و شمار سے اندازہ لگاتے ہیں کہ اصل صورت حال کیا ہے؟
مہنگی طلاق
محکمہ خزانہ کے تازہ ترین تخمینوں کے مطابق، برطانیہ کے یورپی یونین کے ساتھ تصفیے کی لاگت تقریباً 30.2 ارب پاؤنڈ ہے۔ یہ رقم یورپی یونین سے علیحدگی کے نتیجے میں ہونے والے ممکنہ مالی نقصانات کے تخمینے سے الگ ہے۔
2024 کے آغاز تک، اس رقم میں سے 23.8 ارب پاؤنڈ پہلے ہی ادا کیے جا چکے تھے، جبکہ مزید 6.4 ارب پاؤنڈ 2024 اور اس کے بعد ادا کیے جانے ہیں۔
حکومت نے ابھی تک 2024 کے آخر تک کے اعداد و شمار شائع نہیں کیے۔
تاہم، یہ لاگت یورپی یونین سے علیحدگی کے نتیجے میں جی ڈی پی اور تجارت کے حوالے سے پیش گوئی کیے گئے نقصانات کے مقابلے میں بہت کم ہے۔
ایک حکومتی ترجمان نے کہا:’یہ ضروری ہے کہ ہم پیچھے دیکھنے کے بجائے آگے بڑھیں اور بریگزٹ کی تقسیم کو دوبارہ نہ کھولیں، بلکہ اسے برطانوی عوام کے لیے فائدہ مند بنائیں۔ اسی لیے ہم یورپی شراکت داروں کے ساتھ تعلقات کو ازسرِ نو ترتیب دے رہے ہیں تاکہ تعلقات کو مضبوط کریں، ایک وسیع بنیاد پر سکیورٹی معاہدے کریں اور تجارتی رکاوٹوں کو حل کریں۔‘
بریگزٹ اور کرونا: دو دھاری تلوار
برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلتے ہی عالمی سطح پر کرونا وائرس کی وبا پھیل گئی اور لاک ڈاؤنز لگ گئے، جس سے معیشتوں پر شدید برا اثر پڑا۔
آئی ای اے کے ماہرِ معیشت مسٹر جیسپ نے کہا کہ ابھی بریگزٹ کے طویل مدتی قیمت یا فوائد کا فیصلہ کرنا قبل از وقت ہے، اور انہوں نے مزید کہا: مجموعی سطح پر، یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم بریگزٹ کے اثرات کو دیگر بحرانوں، خاص طور پر وبائی مرض اور توانائی کے بحران سے الگ کر سکیں۔ جتنا میں سمجھتا ہوں، میری اپنی رائے ہے کہ برطانیہ کی معیشت اب تقریباً ایک فیصد چھوٹی ہے جیسی کہ یہ بغیر بریگزٹ کے ہوتی۔‘
اس کے باوجود برطانیہ کی جی ڈی پی نے اس وقت جی سیون کے تمام ممالک میں سب سے زیادہ نقصان اٹھایا، 2020 میں 10.3 فیصد کی کمی آئی۔
2023 میں بلومبرگ اکنامکس کے اندازے کے مطابق، یورپی یونین سے انخلا کے بعد برطانیہ ہر سال100 ارب پاؤنڈ کے معاشی نقصان کا سامنا کر رہا ہے۔
معروف ماہرینِ معیشت اینا آندرادے اور ڈین ہینسن نے لکھا: برطانیہ نے ’بریگزٹ کے حق میں ووٹ دے کر برطانوی معیشت کو خودساختہ پہنچایا‘،اور اگر بریگزٹ نہ ہوا ہوتا، تو معیشت آج چار فیصد بڑی ہوتی۔‘
اپنے تازہ ترین تخمینوں اور نئے 2024 بجٹ کے ساتھ، آفس فار بجٹ ریسپانسبلیٹی (او بی آر) نے اندازہ لگایا ہے کہ بریگزٹ کے نتیجے میں طویل مدتی طور پر برطانیہ کی تجارت میں 15 فیصد کمی آئے گی۔
آزاد مالیاتی واچ ڈاگ نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ ’درمیانی مدت میں درآمدات اور برآمدات میں کم ترقی کا ایک حصہ بریگزٹ کے مسلسل اثرات کا عکاس ہے۔‘
یورپی یونین کے حامی تھنک ٹینک یورپین موومنٹ یو کے کے سی ای او سر نک ہاروی نے بریگزٹ کے نتیجے میں ہونے والے اقتصادی نقصان کو ٹھیک کرنے کے لیے یورپ کے ساتھ مزید قریبی شراکت داری کی اپیل کی۔
انہوں نے دی انڈپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے کہا:’یورپی سنگل مارکیٹ سے باہر ہونے کی وجہ سے اب برطانوی معیشت میں پانچ فیصد سے زیادہ کمی آئی ہے، جس کے نتیجے میں خزانے کی مالیات میں تقریباً 45 ارب پاؤنڈ کا سالانہ خسارہ ہو رہا ہے۔ یہ رقم بنیادی شرح کے انکم ٹیکس کی وصولی کا تقریباً ایک تہائی بنتی ہے۔
’ہماری مستقبل کی خوشحالی اور سکیورٹی کے لیے یورپ کے ساتھ ایک بہت قریبی شراکت داری کی ضرورت ہے۔ حکومت کا ’ری سیٹ‘ (نیا آغاز) درست سمت میں جا رہا ہے، لیکن اگر ہمیں ایک روشن اور کامیاب مستقبل بنانا ہے تو حکومت کو اس سے کہیں زیادہ تیزی سے آگے بڑھنا ہو گا۔‘
تجارت پر اثرات
لندن سکول آف اکنامکس (ایل ایس ای) کے سینٹر فار اکنامک پرفارمنس کی ایک حالیہ تحقیق میں یہ نتیجہ نکالا گیا کہ 2022 میں بریگزٹ کے نتیجے میں برطانیہ کی اشیا کی برآمدات میں 27 ارب پاؤنڈ کی کمی آئی۔
خصوصاً تحقیق میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ برطانیہ کا تجارتی تعاون معاہدہ (ٹی سی اے)، جو جنوری 2021 میں نافذ ہوا، نے برطانیہ کی اشیا کی برآمدات (سروسز کو چھوڑ کر) کو دنیا بھر میں 6.4 فیصد کم کر دیا، جس کی وجہ یورپی یونین کی برآمدات میں 13.2 فیصد کی کمی تھی۔
تحقیق کے مصنفین نے کہا کہ بریگزٹ کے بعد یورپی یونین کی تجارت میں کمی کا سبب’ ٹی سی اے کے تحت نئے تجارتی رکاوٹیں تھیں، نہ کہ علیحدگی کے عمل میں غیر یقینی صورت حال۔‘
تحقیق میں یہ بھی کہا گیا کہ 16 ہزار 400 کاروبار، یعنی برطانیہ کے برآمد کنندگان کا تقریبا 14 فیصد، بریگزٹ کے تجارتی قواعد کی وجہ سے یورپی یونین کو برآمدات بند کر چکے ہیں۔
اگرچہ اس تحقیق کے شریک مصنف اور ایل ایس ای کے معیشت کے پروفیسر ٹامس سیمپسن نے کہا کہ تجارتی نقصان ’توقع سے کم‘ تھا، انہوں نے ٹی سی اے کو ’چھوٹے برآمد کنندگان کے لیے تباہی‘ قرار دیا۔
اس کا ایک حصہ ممکنہ طور پر نئی برآمدی ضوابط کی پیچیدگی کی وجہ سے ہے، جسے بڑے کاروبار بہتر طریقے سے جذب کر سکتے ہیں۔ مارکس اینڈ سپینسر کے چیئرمین نے کہا کہ اس کو محض کاغذی کارروائی ذخیرہ کرنے کے لیے ایک گودام کرائے پر لینا پڑا۔
برطانوی تجارتی پالیسی منصوبے کے ڈائریکٹر مسٹر ہینیگ نے کہا کہ اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ تجارت میں برطانیہ نے یورپی یونین کے مقابلے میں زیادہ نقصان اٹھایا ہے۔
’بریگزٹ نے ہماری برآمدات کو ہماری یورپی یونین سے درآمدات کے مقابلے میں زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ یورپی درآمد کنندگان کے لیے متبادل سپلائرز تلاش کرنا نسبتاً آسان رہا، جبکہ برطانوی درآمد کنندگان کے لیے یورپی سپلائرز کا متبادل تلاش کرنا مشکل ثابت ہوا۔‘
سب سے زیادہ متاثر ہونے والے تجارتی شعبوں میں خوراک، زراعت اور ماہی گیری شامل ہیں۔
سینٹر فار انکلوسیو ٹریڈ پالیسی (سی آئی ٹی) کے مطابق، عبوری مدت کے خاتمے کے بعد سے، برطانیہ کی یورپی یونین کو خوراک کی برآمدات میں ہر سال اوسطاً2.8 ارب پاؤنڈ کی کمی واقع ہوئی ہے۔
سی آئی ٹی پی کی رپورٹ کے مطابق، خوراک اور زرعی برآمدات میں 16 فیصد کی یہ کمی ’کسی جلد بحالی کے آثار نہیں دکھا رہی‘ اور اس کا سبب سخت سرحدی چیک اور انتظامی پیچیدگیاں ہیں۔
پیداوار کے حوالے سے، کسانوں کو اب یورپی یونین کی مشترکہ زرعی پالیسی کا فائدہ نہیں ملتا، جو کہ ایک بڑا نقصان ہے، خاص طور پر برطانیہ میں زرعی سبسڈی میں کی گئی کٹوتیوں کے پیش نظر۔
لبرل ڈیموکریٹس کے اندازے کے مطابق، 2015 سے حقیقی معنوں میں زرعی سبسڈی میں 20 فیصد کمی آئی ہے، اور اس صنعت کو مزدوروں کی قلت کے باعث کارکن بھرتی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ڈیری صنعت میں، 2024 میں ہر 12 میں سے ایک کسان کو پیداوار میں کٹوتی کرنی پڑی، جبکہ آرلا فوڈز یو کے کے ایک سروے کے مطابق 56 فیصد ڈیری پروڈیوسرز کا کہنا ہے کہ بریگزٹ اور کووڈ کے بعد کارکنوں کی بھرتی مزید مشکل ہو گئی ہے۔
صارفین بھی ان دباؤ کا اثر محسوس کر رہے ہیں۔ ایل ایس ایک کی ایک 2023 کی الگ تحقیق کے مطابق، اگر بریگزٹ نہ ہوا ہوتا تو خوراک اور غیر الکحل مشروبات کی مہنگائی آٹھ فیصد کم ہوتی۔
تحقیق کے مصنفین کا کہنا ہے کہ ’اس بات کے ٹھوس شواہد ہیں کہ یہ اثرات بریگزٹ کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہیں، اور ان کا کووڈ یا یوکرین جنگ سے تعلق نہیں۔‘
ماہی گیری کا بحران
نائیجل فراج کی یوکیپ پارٹی نے 2015 میں ایک پوسٹر مہم کے ذریعے دعویٰ کیا تھا کہ یورپی یونین نے برطانوی ماہی گیری کو ’تباہ کر دیا‘ ہے۔
اس کے باوجود ماہی گیر بڑی حد تک بریگزٹ کے بعد ٹی سی اے میں طے شدہ شرائط سے ناخوش ہیں، جس میں فرانسیسی-برطانوی تعطل اور برطانوی ماہی گیری پر مسلسل پابندیاں ہیں۔
2019 سے برطانیہ کی سمندری خوراک کی برآمدات میں ایک چوتھائی کمی آئی ہے، جو سالانہ چار لاکھ 54 ہزار ٹن سے کم ہو کر 2023 میں تین لاکھ 36 ہزار ٹن تک پہنچ چکی ہے۔ مالیت کے لحاظ سے یہ کمی 28 کروڑ 30 لاکھ پاؤنڈ بنتی ہے۔
دسمبر میں برطانوی وزیرِ اعظم سر کیئر سٹارمر نے یورپی یونین کے ساتھ 36 کروڑ پاؤنڈ کا نیا ماہی گیری معاہدہ کیا، جس کے تحت 15 ہزار ٹن (11 فیصد) اضافی ماہی گیری کے مواقع دستیاب ہوں گے۔
بریگزٹ کے حق میں ایک مشہور دلیل یہ تھی کہ برطانیہ یورپی یونین کو ہر ہفتے 35 کروڑ پاؤنڈ بھیجتا ہے، جو قومی صحت سروس (این ایچ ایس) پر خرچ کیے جا سکتے ہیں۔
یہ کہنا مشکل ہے کہ آیا یہ رقم واقعی این ایچ ایس پر لگائی گئی یا نہیں۔ کووڈ کے ہنگامی فنڈز کو چھوڑ کر، مالی سال 2020/21 اور 2021/22 میں این ایچ ایس کا بجٹ بمشکل بڑھا۔ تاہم، 2022/23 میں بنیادی این ایش ایس بجٹ 162.3 ارب پاؤنڈ سے بڑھ کر 185.4 ارب پاؤنڈ تک پہنچ گیا۔
یہ بجٹ ابھی بھی پچھلے سال کے مقابلے کم تھا جب اضافی کوویڈ اخراجات بھی شامل تھے۔
2023 میں، بریگزٹ مہم کے سابق حامی مائیکل گف نے دعویٰ کیا کہ بریگزٹ نے این ایچ ایس والے 35 کروڑ پاؤنڈ کے وعدے کو پورا کیا، مگر اس کے حق میں کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا۔
کووڈ اور بریگزٹ کے ایک ساتھ ہونے کی وجہ سے یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد بچائی گئی رقم نیشنل ہیلتھ سروس(این ایچ ایس) پر خرچ کی گئی یا نہیں، اور فنڈنگ کے فیصلے کن عوامل کی بنیاد پر کیے گئے۔
2016 کے ریفرنڈم کے بعد، نائیجل فراج نے فوری طور پر کہا کہ وہ اس بات کی ضمانت نہیں دے سکتے کہ یورپی یونین کو دی جانے والی رقم این ایچ ایس پر خرچ ہو گی۔ ان کا کہنا تھا:’نہیں، میں اس کی ضمانت نہیں دے سکتا، اور میں نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا۔ میرے خیال میں یہ ان غلطیوں میں سے ایک تھی جو لیو مہم (Leave Campaign) نے کی۔‘
نقل مکانی: ناکام وعدے
بریگزٹ مہم کے بنیادی نکات میں سے ایک برطانیہ میں امیگریشن کو کم کرنا تھا۔ 2016 میں سنڈے ٹائمز میں ڈیوڈ کیمرون کو لکھے گئے ایک کھلے خط میں بورس جانسن اور مائیکل گف نے کہا تھا: ’جب تک برطانیہ یورپی یونین کا رکن ہے، نیٹ امیگریشن کو کم کرنے کا وعدہ پورا ہونا ممکن نہیں، اور اس میں ناکامی سیاست میں عوامی اعتماد کو نقصان پہنچا رہی ہے۔‘
تاہم، یورپی یونین چھوڑنے کے بعد بھی نیٹ امیگریشن پر وہ اثر نہیں پڑا جس کی توقع کی جا رہی تھی۔
اگرچہ برطانیہ نے 2020 میں یورپی یونین چھوڑ دی تھی، لیکن آزاد نقل و حرکت جنوری 2021 تک برقرار رہی۔ اس کے بعد سے نیٹ امیگریشن اور مجموعی امیگریشن میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
جون 2021 سے جون 2024 کے درمیان کم از کم 36 لاکھ افراد برطانیہ میں داخل ہوئے، جب کہ اسی عرصے میں نیٹ امیگریشن 23 لاکھ رہی۔
بریگزٹ امیگریشن قوانین کے پہلے سال (دسمبر 2021 تک) نیٹ امیگریشن بڑھ کر چار لاکھ 84 ہزار تک پہنچ گئی، جو گذشتہ دہائی میں سب سے زیادہ تھی۔
یہ رجحان مزید بڑھا اور حکومت کے نظرثانی شدہ اعداد و شمار کے مطابق جون 2023 تک نیٹ امیگریشن نو لاکھ چھ ہزار کی نئی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔
بریگزٹ سے قبل چار سالوں میں یورپی یونین کے ممالک سے نیٹ امیگریشن غیر یورپی ممالک کے مقابلے میں زیادہ تھی۔ تاہم، 2019 کے بعد سے زیادہ تر نیٹ امیگریشن غیر یورپی ممالک سے ہوئی، جو 2023 میں چھ لاکھ 62 ہزار تک پہنچ گئی۔
حقیقت یہ ہے کہ 2021 میں بریگزٹ قوانین نافذ ہونے کے بعد سے یورپی یونین سے نیٹ امیگریشن منفی رہی، یعنی یورپی یونین کے زیادہ شہری برطانیہ سے جا رہے ہیں بجائے اس کے کہ یہاں آ کر بسیں۔
بریگزٹ ریفرنڈم (2016) سے لے کر آزاد نقل و حرکت کے اختتام (2021) تک تقریباً 12 لاکھ 27 ہزار 800 یورپی شہری برطانیہ چھوڑ کر چلے گئے، جو اس سے پچھلے پانچ سالہ عرصے کے مقابلے میں 58 فیصد زیادہ ہے۔ یہ اعداد و شمار مائیگریشن آبزرویٹری کے تجزیے میں سامنے آئے ہیں۔
آئی ای اے کے ماہر معاشیات جولیان جیسپ کا کہنا ہے کہ ’چونکہ برطانیہ یورپی یونین کے سستے مزدوروں پر کم انحصار کر رہا ہے، اس لیے کچھ مزدوروں کو زیادہ اجرت کا فائدہ ہوا ہے۔‘
یہ کہا جا سکتا ہے کہ بریگزٹ نے یورپی یونین سے ہجرت کو محدود کرنے کے اپنے مقصد کو کسی حد تک حاصل کر لیا، لیکن مجموعی طور پر امیگریشن میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
آفس فار نیشنلاسٹیٹسٹکس ( او این ایس) کے تازہ ترین اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ برطانیہ میں غیر یورپی ممالک سے آنے والے تارکین وطن کی سب سے بڑی تعداد انڈیا، نائیجیریا، پاکستان، چین اور زمبابوے سے ہے۔
بریگزٹ کے نتیجے میں برطانوی شہریوں کو یورپی یونین میں آزاد نقل و حرکت کے حقوق سے بھی محروم ہونا پڑا۔
ہائر ایجوکیشن سٹیٹسٹکس ایجنسی کے اعداد و شمار کے مطابق برطانوی یونیورسٹیوں میں یورپی طلبہ کی تعداد 2019 میں تقریباً ایک لاکھ 47 ہزار 920 سے کم ہو کر 2022 میں 95 ہزار رہ گئی۔
اس سے پہلے یورپی طلبہ برطانیہ میں مقامی طلبہ کے برابر فیس ادا کرتے تھے، جو تقریباً نو ہزار پاؤنڈ تھی۔ لیکن اب تمام بین الاقوامی طلبہ (بشمول یورپی طلبہ) زیادہ فیس ادا کرتے ہیں، جو کچھ یونیورسٹیوں، جیسے کہ آکسفورڈ میں، 35 ہزار 260 سے 59 ہزار 260 پاؤنڈ سالانہ تک ہو سکتی ہے۔
برطانوی طلبہ کی یورپی یونیورسٹیوں میں داخلے کے کوئی مرکزی اعداد و شمار موجود نہیں، تاہم اب وہ یورپی یونین کے رکن ممالک کے برابر کم ٹیوشن فیس ادا کرنے کے اہل نہیں رہے، حالانکہ کچھ یورپی یونیورسٹیوں میں تعلیم تقریباً مفت ہے۔
برطانوی خودمختاری
اگرچہ کئی پہلوؤں میں بریگزٹ توقعات پر پورا نہیں اترا، لیکن یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد قانون سازی میں زیادہ لچک ممکن ہو سکی ہے۔
ویلیو ایڈڈ ٹیکس (ای اے ٹی) کے قوانین ایک اہم شعبہ ہیں جہاں اس کا استعمال کیا گیا ہے۔
یورپی یونین کے رکن ممالک پر کم از کم وی اے ٹی کی پابندیاں لاگو ہوتی ہیں، جن میں کچھ استثنیٰ حاصل ہوتا ہے۔
جب برطانیہ یورپی یونین کا حصہ تھا، تو وہ ماحول دوست ٹیکنالوجیز جیسے ہیٹ پمپس پر وی اے ٹی کم نہیں کر سکتا تھا، حالانکہ بعد میں یورپی یونین نے سولر پینلز پر وی اے ٹی کی شرح کم کر دی۔
اسی طرح، یورپی یونین کا حصہ رہتے ہوئے ’ٹیمپون ٹیکس‘ ختم کرنا ممکن نہیں تھا۔ تاہم، بعد میں یورپی یونین نے بھی اپنے رکن ممالک کو حفظانِ صحت کی مصنوعات پر وی اے ٹی سے مستثنیٰ کرنے کی اجازت دے دی۔
بریگزٹ کے نتیجے میں لیبر پارٹی کی جانب سے نجی سکولوں کی فیس پر وی اے ٹی عائد کرنے کے متنازعہ اقدام کو بھی ممکن بنایا گیا، کیونکہ یورپی یونین کے قوانین کے تحت تعلیم کو وی اے ٹی سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا۔
بریگزٹ کے حامی اور کنزرویٹو پارٹی کے سابق وزیر جیکب ریس موگ نے کہا کہ گزشتہ پانچ سالوں میں یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ ’یورپی یونین تیزی سے ضابطہ جاتی دلدل میں دھنس رہی ہے، جس سے ہم بمشکل بچ رہے ہیں، وہ بھی اس حکومت کی کسی خاص کوشش کے بغیر۔‘
لیبر پارٹی کی رکن پارلیمنٹ اور لیبر موومنٹ فار یورپ کی چیئرمیں، سٹیلا کریسی نے کہا: ’عوام بیوقوف نہیں ہیں، وہ جانتے ہیں کہ بریگزٹ کے فوائد نہایت نایاب ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ان مسائل کے حقیقت پسندانہ حل تلاش کیے جائیں جو اس کی وجہ سے پیدا ہو رہے ہیں، جیسے یوتھ موبیلیٹی ڈیل یا پین-یورپین میڈیٹیرینین کنونشن میں دوبارہ شمولیت۔‘
© The Independent