کراچی کی خاتون گلائیڈر جو پیراگلائیڈنگ کو ’نشہ‘ سمجھتی ہیں

ثنا امیر کے مطابق پیراگلائیڈنگ کی بنیادی تربیت کے لیے کراچی کی آب و ہوا انتہائی موزوں ہے۔

پاکستان کے متعدد شہروں میں پیراگلائیڈنگ کرنے والی کراچی کی خاتون ثنا کا کہنا ہے کہ ملک میں اس کھیل کے فروغ کی ضرورت ہے۔

ثنا امیر نے پیراگلائیڈنگ کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومت اور عام لوگ کرکٹ اور روایتی کھیلوں کی طرح اسے بھی اہم کھیل تسلیم کر کے فروغ میں اپنا کردار ادا کریں، کیوںکہ اس کھیل میں نوجوانوں خاص طور پر خواتین کے لیے بہترین مواقع ہیں۔‘

ثنا امیر پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور انہوں نے سوشل میڈیا پر اس کھیل کی تربیت کے بارے میں سنا اور سوچا کہ اس کھیل کی بنیادی تربیت لی جائے، مگر تربیت کے بعد اس کھیل سے اتنا لگاؤ ہوا کہ وہ اب تک اسلام آباد، چکوال اور پاکستان کے متعدد شہروں اور بیرون ملک بھی پیراگلائیڈنگ کر چکی ہیں۔

ثنا امیر نے کہا: ’پیراگلائیڈنگ میں ایک نشہ ہے۔ میں نے تو صرف بنیادی تربیت لینے کا سوچا تھا، مگر بعد میں گروپ بن گیا۔

’کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ مختلف شہروں میں جاکر پیراگلائیڈنگ کروں گی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ثنا امیر کے مطابق پیراگلائیڈنگ کی بنیادی تربیت کے لیے کراچی کی آب و ہوا انتہائی موزوں ہے۔

’کیوں کہ کراچی میں سمندری ہوائیں چلتی ہیں اور اکثر سمندری ہوا متواتر چلتی ہیں، اس لیے کراچی میں پیراگلائیڈنگ کی بنیادی تربیت کے لیے کافی بہتر ہے۔‘

ثنا امیر کے مطابق: ’پیراگلائیڈنگ  اصل میں بغیر موٹر کی جاتی ہے۔ جس میں پائلٹ اونچے مقام یا پہاڑ کی اونچائی سے اپنے ساتھ لگائے ہوئے پروں کے ساتھ چھلانگ لگاتا ہے اور مختلف پہاڑوں کے درمیان میں سفر کرتے ہوئے منزل مقصود تک پہنچتا ہے۔

’مگر کراچی میں پہاڑ نہیں ہیں، اس لیے کراچی میں پیراگلائیڈنگ کی بنیادی تربیت کے لیے لو فلائنگ کی جا سکتی ہے۔ مگر کراچی میں موٹر گلائیڈنگ کے لیے انتہائی موزون ماحول ہے۔ موٹر گلائیڈنگ میں بڑے پروں کی موٹر بھی ہوتی ہے اور پیراگلائیڈنگ میں پائلٹ کھڑا ہوکر گلائیڈنگ کرتا ہے۔ موٹر گلائیڈنگ میں پائلٹ سیٹ پر بیٹھ کر گلائیڈنگ کرتا ہے۔‘

ثنا امیر کے مطابق پیراگلائیڈنگ دیگر روایتی کھیلوں کے مقابلے میں تھوڑا مہنگا کھیل ہے، اس کھیل کو سیکھنے کے لیے بنیادی تربیت پر خرچہ آتا ہے۔ اس کھیل میں استعمال ہونے والا سامان بھی مہنگا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کھیل کو کھیلنے کے لیے شہر سے باہر سفر کرنے پر اخراجات، خوراک اور رہائش پر بھی خرچہ آتا ہے۔

بقول ثنا امیر: ’اس لیے کچھ لوگ یہ کھیل کھیلنا چاہتے ہیں مگر اس کھیل کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتے۔ اس لیے حکومت یا نجی ادارے آگے آئیں اور اس کھیل کے فروغ کے لیے اپنا کردار ادا کریں تو یہ کھیل ایک صحت مند سرگرمی بن سکتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کھیل