چترال میں پیراگلائیڈنگ کا کھیل فروغ پا رہا ہے، چترال کو اُڑان بھرنے کے لیے مشکل جگہ سمجھا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود مقامی لوگ پیراگلائیڈنگ کی تربیت حاصل کر رہے ہیں۔
غیر ملکی پیراگلائیڈر جو ایسی اُڑان بھرنے کے ماہر ہوتے ہیں، ہر سال چترال کا رُخ کرتے ہیں۔
چترال میں ہر پیراگلائیڈر آسانی سے نہیں اُڑ سکتا کیونکہ یہاں جگہ نا ہموار اور تیز ہوائیں چلتی ہیں، تھوڑی سی بے اختیاطی کسی بڑے حادثے کا سبب بن سکتی ہے۔
چترال کے علاقے بونی سے تعلق رکھنے والے 21 سالہ محمد شمس القمر جو پیرا گلائیڈنگ کی تربیت حاصل کر رہے ہیں، کا کہنا ہے کہ وہ چار سال سے پیرا گلائیڈنگ کی پریکٹس کر رہے ہیں۔ عام طور پر وہ قاقلشٹ میں پریکٹس کرتے رہتے ہیں اور شندور میں بھی اُڑنے کی پریکٹس کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شندور، بیرموغ لشٹ اُڑنے کے لیے مشکل جگہیں سمجھی جاتی ہیں جب کہ قاقلشٹ آسان ہے۔ شندور اور بروغل میں تیز ہوائیں چلتی ہیں اور پیراشوٹ بے ربط ہوکر قابو سے باہر ہو سکتا ہے۔
اُن کا مزید کہنا ہےکہ وہ تیس منٹ تک ہوا میں رہ سکتے ہیں اور ہوا میں اُڑنا ان کا شوق ہے۔ وہ ترچ میر بیک پیکر کے نام سے اپنی کمپنی بھی رجسٹرڈ کر چکے ہیں تاکہ مستقبل میں اپنے کام کے ساتھ ساتھ لیے پیراگلائیڈنگ کے شوق کو بھی پورا کر سکیں۔
المعتصم باللہ ایک ایڈوانس پائلٹ ہیں جو 13 سال سے پیرا گلائیڈنگ کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چترال کے نوجوان پیرا گلائیڈنگ میں دلچسپی رکھتے ہیں لیکن جن کے پاس پیسے ہیں ان کے پاس ٹیلنٹ نہیں ہے اور جن کے پاس ٹیلنٹ ہے ان کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ کیونکہ اس کھیل میں پیسہ خرچ کرنا ہوتا ہے۔ اگر آپ استعمال شدہ سامان لیتے ہو تو ڈھائی لاکھ تک آتا ہے اور نئے سامان کے لیے چھ سے سات لاکھ روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں، یہ بھی بغیر ٹیکس کے ہے۔ اگر ٹیکس لگ گیا تو اس کا دوگنا خرچ کرنا پڑے گا۔ اس لیے ہر کوئی یہ شوق آسانی سے پورا نہیں کرسکتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹریننگ کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ ٹریننگ کے لیے ہم جو فلائیٹ کرتے ہیں اس کو ٹینڈم فلائیٹ کہتے ہیں۔ ہم سیکھنے والے کو ساتھ بٹھاتے ہیں. ہم لوگ سکھانے کے لیے ہفتے کے 30000 روپے فیس لیتے ہیں۔ باہر کے ملکوں میں انسٹرکٹر بننا کافی مشکل کام ہے۔ ان ملکوں میں انسٹرکٹر بننے کی لیے 23 سال کا تجربہ اور 5000 گھنٹوں کی فلائیننگ کا تجربہ ضروری ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں پیرا گلائیڈنگ کو کھیل کی حیثیت حاصل نہیں اور نہ حکومت کی طرف سے کوئی امداد ملتی ہے۔ جشن شندور میں ہم لوگ فلائنگ کرتے ہیں۔ اس فلائنگ کے عوض پوری ٹیم کو دو لاکھ روپے دیے جاتے ہیں۔ اگر اس کو باقاعدہ کھیل تسلیم کیا گیا تو یہ لوگوں کے لیے روزگار کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
پیرا گلائیڈنگ اینڈ ہینکنگ ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر سید سجاد علی شاہ کا کہنا ہے کہ 2008 سے پہلے پاکستان میں پیرا گلائیڈنگ کے ایونٹ ہوتے رہتے تھے۔ پھر پاکستان میں دہشت گردی کی وجہ سے جاری نہ رکھ سکے۔ اور 2019 میں ہم نے ایک ایونٹ کیا تھا۔ اس میں سو کے قریب باہر کے پیراگلائیڈرز نے شرکت کی تھی۔ ہم وقت کے ساتھ ساتھ ایونٹس کرتے رہتے ہیں۔