ہم اپنے دماغ کے ساتھ آخر کر کیا رہے ہیں؟

روزمرہ کی روٹین سے اُکتا کر ہم اپنے فون پر مصروف ہو جاتے ہیں اور سوشل میڈیا پر موجود انفارمیشن اپنے اندر انڈیلنے لگتے ہیں، یعنی دماغ ہر وقت کام کر رہا ہے، کہیں سکون اور چین کے دو پل نہیں۔

ہم آج کل جسے فارغ وقت کہتے ہیں، جس میں ہم کچھ نہیں کر رہے ہوتے، اس میں بھی ہم یا تو انسٹاگرام پر ریلز دیکھ رہے ہوتے ہیں یا نیٹ فلکس دیکھ رہے ہوتے ہیں (اینواتو)

یہ 2016 کی بات ہے۔ میرے آفس میں زور دار بحث چل رہی تھی کہ ’گیم آف تھرونز‘ کا نیا سیزن آنے والا ہے۔ جب میں نے اپنے ایک کولیگ سے پوچھا کہ کس حوالے سے بات ہو رہی ہے تو سب نے مجھے ایسے دیکھا جیسے میں اس دنیا کی نہیں ہوں یا مجھے کچھ پتہ ہی نہیں ہے۔

مجھے عجیب سی شرمندگی محسوس ہوئی کہ میڈیا میں کام کرتے ہوئے مجھے اتنے سال ہو گئے تھے اور میں اس نئے ٹرینڈ سے نا واقف ہوں۔ بس پھر میں نے ٹورنٹ سے گیم آف تھرونز کا پہلا سیزن ڈاؤن لوڈ کیا اور مانو جیسے سیزنز کی لت ہی لگ گئی۔ دلچسپی مزید بڑھی تو میں نے نیٹ فلکس کا اکاؤنٹ بھی بنا لیا۔

ایسا نہیں تھا کہ میں فلمیں نہیں دیکھتی تھی۔ ہالی وڈ کی ہر نئی فلم یا تو سینیما جا کر یا پھر ٹورنٹ کی بدولت دیکھا کرتے تھے۔ اس زمانے میں ہاسٹل میں، میں اور میری روم میٹس ایک دوسرے کے ساتھ یو ایس بی کا تبادلہ کیا کرتے تھے۔ ہم تینوں رات نو بجے اپنے کمرے کی روشنی کم کرکے اپنے اپنے کمپیوٹر پر فلمیں دیکھا کرتے تھے، خاص کر وہ فلمیں جو آسکر ایوارڈ جیت چکی ہوں یا آئی ایم ڈی بی (IMDB) پر اس کی ریٹنگ سات پوائنٹ سے زیادہ ہو۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انگریزی فلم ایک گھنٹہ 40 یا 50 منٹ کی ہوتی تھی اور 11 بجے تک ہم نیند کی وادی کی راہ لیتے تھے، کیونکہ صبح سب کو آفس جانا ہوتا تھا۔ وہ ایک اچھی روٹین تھی ہم سب کام کرتے تھے اور سکرین کا وقت بھی کم تھا۔ سوشل میڈیا اس وقت بھی تھا لیکن اس کا استعمال آج جیسا نہیں تھا۔

 میں جتنی دیر آفس میں ہوتی تھی، سوشل میڈیا دیکھ لیتی تھی، لہذا ہاسٹل واپس آ کر اتنا ضرورت نہیں پڑتی تھی۔

لیکن اب تو یہ حال ہو گیا ہے کہ صبح ہو یا شام، بس نیٹ فلکس اور ایمازون پرائم پر ہی وقت گزر رہا ہے۔ کئی کئی سیزنز ویک اینڈ پر ختم کرنا روٹین بن گئی ہے۔

لیکن سب سے زیادہ جو چیز پریشان کن، وہ یہ ہے کہ یہ روٹین مجھے بہت سست کرنے کے ساتھ ساتھ میرے حافظے کو بھی متاثر کر رہی ہے۔ میں چیزیں بھولنے لگی ہوں۔ جو فلم دو مہینے پہلے دیکھی تھی، اس کی سٹوری یاد نہیں رہتی۔ صبح کی بات اکثر شام کو یاد نہیں رہتی۔

شاید اس سب کی وجہ یہ بھی ہے کہ میں بہت زیادہ انفارمیشن ایک ہی وقت میں اپنے اندر جذب کر رہی ہوں۔ پھر میری جاب کی نوعیت بھی کچھ ایسی ہے کہ روز نئی خبریں سامنے آتی ہیں اور دماغ ہر وقت کسی نہ کسی نئی یا پرانی انفارمیشن کو پراسس کر رہا ہوتا ہے۔

روزمرہ کی اس روٹین سے اُکتا کر ہم اپنے فون پر مصروف ہو جاتے ہیں اور سوشل میڈیا پر موجود انفارمیشن اپنے اندر انڈیلنے لگتے ہیں، یعنی دماغ ہر وقت کام کر رہا ہے، کہیں سکون اور چین کے دو پل نہیں۔ یہ ساری چیزیں دماغ پر خاص طور پر اثر انداز ہوتی ہیں۔

ایک چیز میں نے یہ بھی نوٹ کی کہ جو بھی سیریز میں سونے سے پہلے دیکھ کر سوتی تھی، خواب میں بھی وہی سب دیکھ رہی ہوتی ہوں۔ میرے لیے یہی بہت تشویش کی بات ہے کہ میرا دماغ رات کو سوتے ہوئے بھی پُرسکون نہیں ہے۔

ہم آج کل جسے فارغ وقت کہتے ہیں، جس میں ہم کچھ نہیں کر رہے ہوتے یعنی Doing Nothing، اس میں بھی ہم یا تو انسٹاگرام پر ریلز دیکھ رہے ہوتے ہیں یا نیٹ فلکس دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ کہنے کو ہم کچھ نہیں کر رہے لیکن ہماری آنکھیں اور دماغ دونوں ہی انفارمیشن کو پروسیس کرنے کے چکر میں ہلکان ہو رہے ہوتے ہیں۔

اب تو نیٹ فلکس نے فلموں اور کونٹینٹ بنانے والوں کو کہنا شروع کر دیا ہے کہ انہیں اس طرح کی فلمیں اور سیریز بنانی ہیں کہ دیکھنے والے نیٹ فلکس کے ساتھ موبائل فون بھی استعمال کر سکیں، ایسا ہو گیا تو پھر تو دماغوں کا کام اور بڑھ جانا ہے۔

اپنی ان ساری کیفیات، جسے برین روٹ (Brain Rot) کہتے ہیں، کو سمجھنے میں مجھے حقیقتاً کچھ وقت لگا۔ یہاں یہ بھی بتاتی چلوں کہ آکسفورڈ ڈکشنری نے برین روٹ کو سال 2024 کا لفظ بھی قرار دیا تھا۔

جب مجھے یہ سمجھ میں آ گیا کہ میں اپنے دماغ کے ساتھ کر کیا رہی ہوں تو پھر میں نے اس کے سدباب کا بھی سوچا، لیکن صورت حال ایسی تھی کہ مجھے لگا کہ شاید کسی کی مدد لینی ہی پڑے گی۔

 ‎اس بات میں کوئی عیب نہیں کہ آپ ذہنی کشمکش سے نکلنے کے لیے سائیکولوجسٹ سے مدد لیں اور میں نے بھی یہی کیا۔

میری سائیکولوجسٹ نے مجھے بتایا کہ کسی بھی چیز پر اس قدر غیر ضروری انحصار ذہنی اور جسمانی لحاظ سے غیر صحت مند ثابت ہو سکتا ہے، لہذا مجھے اس پر توجہ دینا ہوگی۔ 

انہوں نے مجھے عمومی طور پر اپنی زندگی کی اور خصوصی طور پر اپنے رشتوں اور سوشل لائف کی کوالٹی بہتر کرنے کا مشورہ دیا۔

میں نے اب سوشل میڈیا کم کر کے دیگر مشاغل یعنی کتابوں اور یوگا میں دل لگانا شروع کر دیا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ذہن سے بادل چھٹنا شروع ہو گئے ہیں۔

یہ سالوں کا غبار کم تک کم ہوگا، یہ تو اب وقت ہی بتائے گا لیکن اپنی طرف سے کوشش پوری جاری ہے۔ باقی اللہ اللہ خیر صلا!

نوٹ: یہ تحریر بلاگر کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ