ٹرمپ انتظامیہ نے واشنگٹن ڈی سی میں واقع امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) کے ہیڈکوارٹرز میں ملازمین کے داخلے پر دوسرے روز بھی پابندی عائد رکھنے کا اعلان کیا ہے، کیونکہ حکومت اس ایجنسی کو بند کرنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس فیصلے پر احتجاجاً دو ڈیموکریٹ سینیٹرز نے محکمہ خارجہ کے نامزد عہدیداروں کی توثیق رکوانے کی دھمکی دی ہے۔
پیر کو یو ایس ایڈ کے دفاتر کی بندش کے بعد ایجنسی میں مزید بے یقینی کی صورت حال پیدا ہوگئی ہے، جو دنیا بھر میں اربوں ڈالر کی انسانی امداد تقسیم کرتی ہے۔
یہ اقدام اس وقت سامنے آیا جب ٹرمپ نے 20 جنوری کو عہدہ سنبھالنے کے چند گھنٹوں بعد ہی امریکی بیرونی امداد پر پابندی عائد کرنے کا حکم دیا تھا۔
یو ایس ایڈ کو بند کرنے کا فیصلہ ارب پتی کاروباری شخصیت ایلون مسک کے منصوبے کا حصہ ہے، جنہیں صدر نے وفاقی حکومت کے اخراجات کم کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے۔
ایک سینیئر وائٹ ہاؤس عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ٹرمپ یو ایس ایڈ کو محکمہ خارجہ میں ضم کرنے پر غور کر رہے ہیں اور ’ایلون کو اس ایجنسی کی کارکردگی کا جائزہ لینے کی ذمہ داری دی گئی ہے۔‘
ایک داخلی ای میل، جو روئٹرز نے دیکھی، کے مطابق جبری رخصت پر بھیجے گئے درجنوں ملازمین اور کنٹریکٹرز کی موجودگی میں ڈیموکریٹ قانون سازوں کے ایک گروپ نے یو ایس ایڈ ہیڈکوارٹرز کے سامنے احتجاج کیا، جسے پیر کو ملازمین کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔
روئٹرز نے ایک اور ای میل دیکھی جس کے مطابق، پیر کو رات گئے ملازمین کو مطلع کیا گیا کہ وہ ایجنسی کے ہیڈکوارٹرز اور واشنگٹن میں واقع دوسرے دفتر سے منگل کو بھی ریموٹ کام کریں، جس سے عملے اور قانون سازوں کی جانب سے ظاہر کی گئی تشویش میں مزید اضافہ ہوا۔
یو ایس ایڈ ہیڈکوارٹرز کے باہر تقریر کرتے ہوئے امریکی رکنِ کانگریس جیمی راسکن نے کہا، ’ہماری حکومت کی کوئی چوتھی شاخ نہیں، جسے ایلون مسک کہا جائے۔‘
سینیٹر برائن شٹز اور کرس وان ہولن نے اعلان کیا کہ وہ محکمہ خارجہ کے لیے ٹرمپ کے نامزد کردہ افراد کی توثیق روکیں گے۔
وان ہولن نے کہا، ’ ہم نامزد افراد کی منظوری کے عمل کا شیڈول کنٹرول کر سکتے ہیں۔
جب تک یہ غیرقانونی اقدام واپس نہیں لیا جاتا، ہم محکمہ خارجہ کے نامزد افراد کی منظوری رکوانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔‘
غیر قانونی اقدام
20 جنوری کو ٹرمپ کے زیادہ تر امریکی غیر ملکی امداد کو منجمد کرنے کے حکم کے بعد یو ایس ایڈ کے سینکڑوں پروگرام، جو دنیا بھر میں زندگیاں بچانے کے لیے اربوں ڈالر کی امداد فراہم کرتے تھے، مکمل طور پر تعطل کا شکار ہو گئے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ یہ امداد ان کی ’امریکہ فرسٹ‘ پالیسی کے مطابق ہو۔
اگر یو ایس ایڈ کو محکمہ خارجہ میں ضم کر دیا گیا تو اس کے ممکنہ طور پر دنیا کے سب سے بڑے واحد عطیہ دہندہ امریکہ سے امداد کی تقسیم کے نظام پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مسک یو ایس ایڈ پر بڑھ چڑھ کر تنقید کرتے اور اسے ایک بائیں بازو کا ادارہ قرار دیتے رہے ہیں، جو وائٹ ہاؤس کے سامنے جوابدہ نہیں۔ مسک کے ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ اکثر بغیر ثبوت کے الزامات عائد کرتے ہیں جو ممکنہ طور پر نظریاتی بنیادوں پر مبنی ہوتے ہیں۔
حالیہ واقعات نے ٹرمپ کی پالیسی سازی میں ایلون مسک کے طاقت ور کردار کو نمایاں کر دیا ہے۔
گذشتہ ہفتے، مسک کی ٹیم، جو محکمہ برائے حکومتی کارکردگی میں کام کر رہی ہے، نے محکمہ خزانہ کے انتہائی حساس ادائیگی کے نظام تک رسائی حاصل کی اور، جیسا کہ روئٹرز نے رپورٹ کیا، کچھ ملازمین کو ان کے ادارے کے کمپیوٹر سسٹمز سے لاگ آؤٹ کر دیا۔
یو ایس ایڈ میں دو سینیئر سکیورٹی اہلکاروں کو جبری رخصت پر بھیج دیا گیا، کیونکہ انہوں نے اختتامِ ہفتہ کے موقع پر موجود ڈی او جی ای (DOGE) کے ملازمین کو خفیہ دستاویزات فراہم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
سینیٹر برائن شٹز نے ایجنسی کے ہیڈ کوارٹر کے باہر رائٹرز کو بتایا: ’یو ایس ایڈ کے ساتھ جو ہو رہا ہے، وہ بالکل غیرقانونی ہے، اور یہ اندرون اور بیرون ملک امریکیوں کے لیے خطرناک ہے۔‘
کچھ یو ایس ایڈ ملازمین نے اس وقت پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جب قانون ساز تقریر کر رہے تھے، جن میں سے ایک پر لکھا تھا: ’یو ایس ایڈ زندگیاں بچاتا ہے۔‘
ڈیموکریٹس کا کہنا ہے کہ یو ایس ایڈ کی خودمختاری ختم کرنے کے لیے کانگریس کی منظوری ضروری ہے، تاہم ٹرمپ نے پیر کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں یہ ضروری نہیں لگتا۔
ٹرمپ نے کہا: ’مجھے یو ایس ایڈ کا تصور پسند ہے، لیکن وہ انتہا پسند بائیں بازو کے پاگل نکلے ہیں۔‘
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے سان سلواڈور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ اب یو ایس ایڈ کے قائم مقام سربراہ ہیں۔
انہوں نے یو ایس ایڈ کو ’بے قابو‘ قرار دیا اور کہا کہ ادارے کے اہلکار امریکی پالیسیوں کے برخلاف کام کر رہے تھے۔
انہوں نے ایجنسی کو ’مکمل طور پر غیرجوابدہ‘ قرار دیا اور وہاں کے عملے پر الزام لگایا کہ وہ پروگراموں کے بارے میں ’سادہ سوالوں کے جواب دینے کو تیار نہیں۔‘
روبیو نے کہا: اگر آپ دنیا بھر میں مشنز اور سفارت خانوں میں جائیں، تو آپ کو اکثر یہ پتہ چلے گا کہ بہت سے معاملات میں یو ایس ایڈ ان پروگراموں میں ملوث ہے جو ہمارے قومی حکمت عملی کے مطابق اس ملک یا خطے کے ساتھ جو ہم کرنا چاہتے ہیں، کے بالکل خلاف ہیں۔ یہ جاری نہیں رہ سکتا۔‘
انہوں نے کانگریس کو ایک خط کے ذریعے ایجنسی کی متوقع تنظیم نو کے بارے میں آگاہ کیا، جس میں کہا کہ یو ایس ایڈ کے کچھ حصے محکمہ خارجہ میں ضم کیے جا سکتے ہیں اور باقی کو ختم کیا جا سکتا ہے۔
ڈیموکریٹ سینیٹر جین شاہین نے کہا کہ انہیں روبیو کا نوٹیفکیشن ’قانونی طور پر مکمل طور پر ناکافی‘ لگا اور اس میں ’انتظامیہ کے لیے کیے گئے انتہائی اور اچانک اقدام کی کوئی معقول وجہ نہیں تھی، جبکہ کانگریس کو اس کا پیشگی اطلاع بھی نہیں دی گئی۔‘
مالی سال 2023 میں، امریکہ نے مختلف امدادی پروگراموں کے تحت 72 ارب ڈالر فراہم کیے، جن میں خواتین کی صحت، پینے کے صاف پانی کی فراہمی، ایچ آئی وی/ایڈز کے علاج، انرجی سکیورٹی اور انسدادِ بدعنوانی جیسے اقدامات شامل تھے۔
یہ 2024 میں اقوام متحدہ کے ذریعہ ٹریک کی جانے والی تمام انسانی امداد کا 42 فیصد تھا۔
اور پھر بھی یہ اس کے مجموعی بجٹ کا ایک فی صد سے بھی کم ہے۔
ٹرمپ کے امداد پر پابندی کے حکم کے بعد، محکمہ خارجہ نے دنیا بھر میں کام روکنے کے احکامات جاری کر دیے، سوائے ہنگامی غذائی امداد کے۔ ماہرین نے انتباہ کیا کہ اس اقدام سے لوگوں کی جانیں جانے کا خطرہ ہے۔
اس کے بعد سے، یو ایس ایڈ کے درجنوں مستقل ملازمین کو جبری رخصت پر بھیج دیا گیا ہے۔
تین ذرائع جو اس معاملے سے آگاہ ہیں، نے روئٹرز کو بتایا کہ یو ایس ایڈ کے ذاتی خدمات فراہم کرنے والے کنٹریکٹرز، جو ایجنسی کے انسانی امداد کے بیورو میں زیادہ تر کام کرتے ہیں، کو بھی ان کے حکومتی اکاؤنٹس سے لاک آؤٹ کر دیا گیا ہے۔
ایک یو ایس ایڈ اہلکار نے کہا: ’اگر پی ایس سی نہ ہوں تو یو ایس ایڈ میں انسانی امداد کا بیورو عملی طور پر موجود نہیں رہتا۔
وزیر خارجہ روبیو کی طرف سے ایمرجنسی فوڈ اور دیگر فوری امداد کے لیے دی جانے والی چھوٹ صرف دھوکہ اور مذاق ہے، اگر کوئی ان امدادی اقدامات کو عملی طور پر نافذ کرنے والا موجود نہ ہو۔‘