امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ غزہ میں جاری ’نازک‘ فائر بندی کے برقرار رہنے کی ’کوئی ضمانت نہیں ہے۔‘
صدر ٹرمپ نے یہ بیان اس وقت دیا ہے جب اسرائیلی وزیرِاعظم بن یامین نتن یاہو واشنگٹن میں نئی ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ حماس کے ساتھ فائر بندی کے دوسرے مرحلے پر بات چیت کے لیے موجود ہیں جو تاحال حتمی شکل نہیں پا سکا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق فائر بندی کے نفاذ کے دو ہفتے بعد حماس حکام نے کہا کہ گروپ دوسرے مرحلے کی تفصیلات پر بات چیت شروع کرنے کے لیے تیار ہے جو پائیدار امن کے قیام میں مدد دے سکتا ہے۔
اسرائیل سے امریکہ روانگی سے قبل نتن یاہو نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ ٹرمپ سے ملاقات میں ایران کے خلاف اقدامات اور تمام قیدیوں کی بازیابی پر تبادلہ خیال کریں گے۔
یہ جنوری میں وائٹ ہاؤس واپسی کے بعد صدر ٹرمپ کی کسی غیرملکی رہنما سے پہلی ملاقات ہو گی جسے نیتن یاہو نے ’اسرائیل-امریکہ اتحاد کی مضبوطی‘ کی علامت قرار دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
غزہ اور لبنان میں جنگ بندی برقرار رہنے کے بعد اسرائیل مقبوضہ مغربی کنارے میں کارروائی کر رہا ہے جس میں درجنوں فلسطینی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
صدر ٹرمپ، جو 15 ماہ کی جارحیت کے بعد فائر بندی معاہدے کا کریڈٹ لے رہے ہیں، نے اتوار کے روز کہا تھا کہ اسرائیل اور مشرقِ وسطیٰ کے دیگر ممالک کے ساتھ مذاکرات آگے بڑھ رہے ہیں۔
تاہم صدر نے بعد میں صحافیوں کو بتایا کہ انہیں ’کوئی یقین دہانی نہیں کہ امن برقرار رہے گا۔‘
نتن یاہو کے دفتر کے مطابق وہ پیر کو ٹرمپ کے مشرقِ وسطیٰ کے ایلچی سٹیو وٹکوف کے ساتھ غزہ جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کی شرائط پر بات چیت کا آغاز کریں گے۔
وٹکوف نے کہا کہ انہیں ’یقیناً امید ہے کہ جنگ بندی برقرار رہے گی۔‘
اگلے مرحلے میں باقی اسرائیلی قیدیوں کی رہائی پر غور کیا جائے گا اور یہ جنگ کے زیادہ مستقل خاتمے کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔
دوسری جانب وائٹ ہاؤس کے عہدیدار نے پیر کو بتایا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ منگل کو اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے ساتھ امریکی تعاون ختم کرنے اور اقوامِ متحدہ کی فلسطینی امدادی ایجنسی یو این آر ڈبلیو اے کی فنڈنگ معطل رکھنے کا اعلان کرنے والے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یہ اقدام اسرائیلی وزیرِاعظم بن یامین نتن یاہو کے واشنگٹن کے دورے کے موقعے پر سامنے آیا ہے جو طویل عرصے سے اقوامِ متحدہ کی فلسطینی امدادی ایجنسی پر تنقید کرتے رہے ہیں۔ وہ اس ایجنسی پر اسرائیل مخالف اشتعال انگیزی کا الزام عائد کرتے ہوئے اور اس کے عملے پر ’اسرائیل کے خلاف دہشت گرد‘ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا دعویٰ کرتے رہے ہیں۔
اقوامِ متحدہ اور یو این آر ڈبلیو اے نے فوری طور پر اس حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
ٹرمپ نے پہلی صدارتی مدت (2017-2021) کے دوران بھی یو این آر ڈبلیو اے کی فنڈنگ روک دی تھی۔ انہوں نے اس ایجنسی کی افادیت پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ فلسطینیوں کو اسرائیل کے ساتھ امن مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر رضامند ہونا چاہیے۔ ٹرمپ نے تب بھی غیر متعین اصلاحات کا مطالبہ کیا تھا۔
پہلی ٹرمپ انتظامیہ نے انسانی حقوق کونسل کو اسرائیل کے خلاف مستقل تعصب اور اصلاحات کی کمی کا الزام دیتے ہوئے اس سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ امریکہ اس وقت جنیوا میں قائم اس ادارے کا رکن نہیں ہے۔ تاہم ڈیموکریٹ صدر جو بائیڈن کے دور میں امریکہ دوبارہ منتخب ہو کر 2022-2024 کی مدت کے لیے اس کونسل کا رکن بنا تھا۔
انسانی حقوق کونسل کا ایک ورکنگ گروپ اگست میں امریکہ کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کا جائزہ لے گا جو ہر چند سال بعد تمام ممالک کے لیے ایک لازمی عمل ہوتا ہے۔ اگرچہ اس کونسل کے پاس قانونی طور پر پابند کرنے والی کوئی طاقت نہیں ہے لیکن اس کے مباحثے سیاسی اہمیت رکھتے ہیں اور اس کی تنقید حکومتوں پر عالمی دباؤ بڑھا سکتی ہے۔
20 جنوری کو دوسری مدتِ صدارت سنبھالنے کے بعد سے ٹرمپ نے امریکہ کو عالمی ادارہ صحت اور پیرس ماحولیاتی معاہدے سے بھی نکالنے کا حکم دیا ہے، یہ وہ اقدامات ہیں جو انہوں نے اپنی پہلی مدتِ صدارت میں بھی کیے تھے۔