افغان طالبان کے اندر بڑھتے ہوئے اختلافات کی خبروں کی وضاحت کرتے ہوئے طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے تسلیم کیا ہے کہ اگرچہ تحریک کی قیادت میں نظریاتی اختلافات موجود ہیں لیکن یہ جھگڑوں یا کھلے تصادم میں تبدیل نہیں ہوتے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس سپیس پر گفتگو کے دوران ذبیح اللہ مجاہد نے زور دیا کہ طالبان کے ارکان کے درمیان اندرونی مباحثے معمول کی بات ہیں اور یہ کسی سنگین اختلاف کی علامت نہیں۔
انہوں نے مزید کہا: ’ہمارے درمیان نظریاتی اختلافات معمول کی بات ہیں۔ اسلامی امارت کا ہر رکن کسی بھی مسئلے کو اپنے نقطہ نظر سے دیکھتا ہے اور بعض اوقات یہ معاملات میڈیا تک بھی پہنچ جاتے ہیں۔ تاہم، ہمارے درمیان کوئی جھگڑے نہیں ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا ’ہم اختلافات کی وجہ سے ایک دوسرے کو نقصان نہیں پہنچاتے۔‘
ترجمان کی یہ وضاحت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب طالبان کی قیادت میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے بارے میں قیاس آرائیاں زور پکڑ رہی ہیں۔
حال ہی میں ایک ذرائع نے افغان نشریاتی ادارے ’تلویزیون آمو‘ کو بتایا کہ قائم مقام وزیر داخلہ سراج الدین حقانی متحدہ عرب امارات کے دورے کے بعد 13 دن سے منظرعام سے غائب ہیں۔ ایک اور ذرائع نے اشارہ دیا کہ ممکنہ طور پر حقانی عمرہ کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب میں موجود ہو سکتے ہیں۔
حالیہ ہفتوں میں طالبان کے اندرونی اختلافات زیادہ نمایاں ہوئے ہیں خاص طور پر اس وقت جب نائب وزیر خارجہ عباس ستانکزئی نے غیر معمولی طور پر طالبان کے سپریم لیڈر ہبت اللہ اخوندزادہ پر خواتین پر پابندیوں کے حوالے سے عوامی تنقید کی۔
عباس ستانکزئی کے بارے میں برطانوی اخبار گارڈین نے ایک خبر میں دعوی کیا ہے کہ وہ سکیورٹی خدشات کی بنا پر ملک چھوڑ چکے ہیں۔
طالبان اس وقت ایک نازک صورت حال سے دوچار ہیں جہاں انہیں اندرونی اختلافات کے ساتھ ساتھ بڑھتے ہوئے بین الاقوامی دباؤ کا بھی سامنا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ چیلنجز طالبان کے لیے فیصلہ کن لمحات ثابت ہو سکتے ہیں کیونکہ وہ اقتدار کو مستحکم کرنے کی کوششوں کے دوران طرز حکمرانی، انسانی حقوق اور گروہ بندی کے مسائل پر بڑھتی ہوئی نگرانی کا سامنا کر رہے ہیں۔
ادھر اخباری اطلاعات کے مطابق افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی ہٹانے کی حمایت کرنے والے طالبان کے ایک سینیئر وزیر طالبان سربراہ پر تنقید کے بعد مبینہ طور پر ملک سے فرار ہونے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
برطانوی اخبار دی گارڈین کی رپورٹ کے مطابق 20 جنوری کو خوست صوبے میں ایک گریجویشن تقریب سے خطاب کرتے ہوئے طالبان کے نائب وزیر خارجہ محمد عباس ستانکزئی نے حکومت کی جانب سے لڑکیوں کے سیکنڈری سکول اور اعلیٰ تعلیم میں شرکت پر عائد پابندی پر تنقید کی۔
ستانکزئی نے کہا کہ ’اس پابندی کا نہ اب اور نہ ہی مستقبل میں کوئی جواز ہے۔‘ انہوں نے مزید کہا: ’ہم دو کروڑ خواتین کے ساتھ ناانصافی کر رہے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نائب وزیر خارجہ نے کہا کہ ’پیغمبر اسلام کے زمانے میں علم کے دروازے مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے کھلے تھے۔ وہ ایسی غیر معمولی خواتین تھیں کہ اگر میں ان کی خدمات کی تفصیل بیان کروں تو کافی وقت درکار ہوگا۔‘
رپورٹ کے مطابق اس تقریر اور مبینہ طور پر طالبان کے سپریم لیڈر ہبت اللہ اخوندزادہ پر تنقید کے بعد طالبان کے سربراہ نے ستانکزئی کی گرفتاری اور ان پر سفری پابندی کا حکم دیا ہے جس کے نتیجے میں ستانکزئی افغانستان چھوڑ کر متحدہ عرب امارات چلے گئے۔
تاہم ان اطلاعات کی سرکاری طور پر تصدیق نہیں ہوئی ہے۔ ستانکزئی نے مقامی میڈیا سے تصدیق کی کہ وہ دبئی میں ہیں لیکن انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ علاج کے لیے وہاں گئے ہیں۔
اخبار نے طالبان سے اس معاملے پر تبصرے کے لیے رابطہ کیا تھا لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
2021 میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے خواتین اور لڑکیوں کے تعلیم، ملازمت، سفر اور عوامی مقامات پر آزادانہ نقل و حرکت کو محدود کر دیا گیا ہے۔
گذشتہ ماہ، بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے چیف پراسیکیوٹر نے طالبان کے سپریم لیڈر اور افغانستان کے چیف جسٹس کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنے کی درخواست کی تھی جن کا دعویٰ تھا کہ افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف ان کی پالیسیوں کو انسانیت کے خلاف جرم تصور کیا جا سکتا ہے۔