ٹرمپ کا دوسرا دور صدارت: کوئی خوش گمانی جو باقی ہو؟

اپنی افتتاحی تقریر میں ’امریکہ کے سنہرے دور‘ کا وعدہ کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے متعدد اہم اقدامات کا اعلان کیا جو داخلی طور پر شدید ردعمل، ملک میں مزید تقسیم کو گہرا کرنے اور عالمی برادری کو بے چین کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ 23 جنوری 2025 کو واشنگٹن ڈی سی میں وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کرنے کے بعد پریس سے بات کر رہے ہیں (رابرٹو شمٹ/ اے ایف پی)

اگر کوئی شک تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی دوسری مدت صدارت میں کم رخنے پیدا کریں گے تو یہ شک ان کی حلف برداری کے ساتھ ہی ختم ہو جانا چاہیے تھا۔

اپنی افتتاحی تقریر میں ’امریکہ کے سنہرے دور‘ کا وعدہ کرتے ہوئے انہوں نے متعدد اہم اقدامات کا اعلان کیا جو داخلی طور پر شدید ردعمل، ملک میں مزید تقسیم کو گہرا کرنے اور عالمی برادری کو بے چین کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔

ان کے عہدہ سنبھالنے کے پہلے دن جاری کیے گئے درجنوں انتظامی احکامات میں سے تین نمایاں ہیں۔

غیر قانونی تارکین وطن کی بڑے پیمانے پر ملک بدری

ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران کیے گئے وعدے کو پورا کرتے ہوئے غیر دستاویزی تارکین وطن کی بڑے پیمانے پر ملک بدری کا اعلان کیا اور میکسیکو-امریکہ سرحد پر قومی ہنگامی حالت نافذ کر دی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ قدم غیر قانونی داخلے کو روکنے اور ’لاکھوں مجرم غیر ملکیوں کو ان کے ملک واپس بھیجنے کے عمل کا آغاز ہے۔‘

اس اقدام سے ایک کروڑ 10 لاکھ افراد متاثر ہو سکتے ہیں۔ ٹرمپ نے ملک بدری اور سرحدی کنٹرول کے لیے فوج تعینات کرنے کا اعلان کیا۔

اگرچہ قدم کو قانونی، مالی اور عملی رکاوٹوں کا سامنا کرنا ہو گا لیکن اس سے ٹرمپ کی حوصلہ شکنی نہیں ہوئی۔ امریکی اور بین الاقوامی سطح پر تنقید کا سامنا کرتے ہوئے پوپ فرانسس نے اس اقدام کو ’شرمناک‘ قرار دیا۔

پیدائشی حق شہریت کا خاتمہ

دوسرا اقدام پیدائشی حق شہریت کے خاتمے سے متعلق ہے۔ ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹیو آرڈر کے ذریعے آئینی ترمیم کے تحت دی گئی پیدائشی شہریت کو ختم کرنے کا اعلان کیا، جسے وہ ’غلط انداز میں تشریح شدہ‘ سمجھتے ہیں۔

ڈیموکریٹک کنٹرول والی درجنوں ریاستوں نے اس حکم کو آئینی خلاف ورزی قرار دے کر چیلنج کیا ہے۔ شہری آزادیوں کی امریکی تنظیم نے اسے ’امریکی اقدار کی ایک لاپروا اور بے رحمانہ تردید‘ قرار دیا۔ اس اقدام پر سخت قانونی جنگ متوقع ہے جو بالآخر سپریم کورٹ تک پہنچے گی۔

ٹرمپ کا ایگزیکٹیو آرڈر

تیسرا اقدام، جسے کئی مبصرین ٹرمپ کی اپنے دشمنوں سے انتقام لینے کی کارروائی سمجھتے ہیں، ایک ایگزیکٹیو آرڈر کے ذریعے کیا گیا جس کا عنوان ہے ’وفاقی حکومت کو ہتھیار بنانے کا خاتمہ‘۔

یہ اقدام بظاہر محکمہ انصاف اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ان اہلکاروں کو نشانہ بناتا ہے جو نام نہاد ’ڈیپ سٹیٹ‘ کے رکن سمجھے جاتے ہیں۔ ٹرمپ طویل عرصے سے ان پر الزام لگاتے رہے ہیں کہ انہوں نے ان کے خلاف سازش کی اور انہیں جیل بھیجنے کی کوشش کی۔

اپنی تقریر میں انہوں نے کہا کہ ’ریاستی طاقت کو کبھی سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔‘ اس حکم میں اٹارنی جنرل اور انٹیلی جنس سربراہوں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ گذشتہ انتظامیہ کے اقدامات کی تفتیش کریں تاکہ ’سیاسی تعصبات‘ کا پتہ لگایا جا سکے اور ’مناسب کارروائی‘ کے ذریعے انہیں درست کیا جا سکے۔ اخبار نیویارک ٹائمز نے اس انتظامی حکم کو ’انتقامی کارروائی کا روڈ میپ‘ قرار دیا۔

یہ اقدام سول سروس میں بڑے پیمانے پر تطہیر کے خدشات کو جنم دے رہا ہے کیوں کہ ٹرمپ اپنے متنازع ایجنڈے میں رکاوٹ سمجھے جانے والے افراد کو ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

فنانشل ٹائمز نے اس کے اثرات کو یوں بیان کیا: ’یہ امریکہ کے لیے نئے دور کی شروعات ہو سکتی ہے، جہاں حکومت کا انحصار رہنما کے فیصلوں پر ہوگا، نہ کہ اداروں کے اصولوں پر۔‘

عالمی سطح پر بھی ٹرمپ کے کچھ بیانات اور خارجہ پالیسی کے منصوبے انتشار کا باعث بن سکتے ہیں۔ انہوں نے بعض بیانات میں توسیع پسندانہ عزائم کا اشارہ دیا، جو 19ویں صدی کی امریکی سامراجیت کی یاد دلاتے ہیں۔

ٹرمپ نے پانامہ نہر اور گرین لینڈ پر قبضے کا عندیہ دیا۔ اس مقصد کے لیے فوجی طاقت کا استعمال بھی شامل ہے۔ انہوں نے کینیڈا کو امریکہ کی 51ویں ریاست بنانے کی دھمکی دی اور خلیج میکسیکو کا نام بدل کر خلیج امریکہ رکھنے کا ایگزیکٹیو آرڈر جاری کیا۔

اپنی تقریر میں ’پانامہ واپس لینے‘ کا وعدہ کیا اور چین پر الزام عائد کیا کہ وہ پانامہ کو کنٹرول کر رہا ہے، جو پانامہ کے صدر ہوزے راؤل مولینو نے بارہا مسترد کیا ہے۔ صدر مولینو نے اقوام متحدہ سے اس دھمکی کی باضاطبہ شکایت کرتے ہوئے کہا کہ ’سنجیدہ بنیں، سنجیدہ بنیں‘ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا انہیں واقعی امریکہ کے حملے کا خدشہ ہے؟

ٹرمپ کی ’امریکہ پہلے‘ پالیسی کے تحت، ایک اور ایگزیکٹیو آرڈر کے ذریعے امریکہ کو پیرس ماحولیاتی معاہدے سے علیحدگی اور اس معاہدے سے متعلق پالیسیوں کو منسوخ کرنے کی ہدایت کی گئی۔

یہ بین الاقوامی کوششوں کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے جو گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے اور عالمی درجہ حرارت سے نمٹنے کے لیے کی جا رہی ہیں۔ ٹرمپ نے یہ اقدام 2017 میں اپنی پہلی مدت صدارت کے دوران بھی کیا، لیکن صدر جو بائیڈن کے دور میں 2021 میں امریکہ دوبارہ اس معاہدے میں شامل ہو گیا۔

اس بار، اس فیصلے کے ساتھ ٹرمپ نے فوسل فیولز (تیل، گیس، اور کوئلہ) کو فروغ دینے کا فیصلہ بھی کیا، جس میں تیل اور گیس کی ڈرلنگ میں اضافہ اور قابل تجدید توانائی کے منصوبوں اور الیکٹرک گاڑیوں کے لیے مراعات سمیت ماحولیاتی پالیسیوں کو ختم کرنا شامل ہے۔ گرین انفراسٹرکچر منصوبوں کے لیے اربوں ڈالر کی فنڈنگ معطل کر دی گئی۔

ٹرمپ نے ایک بے بنیاد اعلان میں کہا کہ ’ماحولیاتی انتہا پسندی نے مہنگائی بڑھا دی اور کاروباروں پر ضوابط کا بوجھ ڈال دیا ہے۔‘

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) سے علیحدگی کا حکم بھی ٹرمپ کے اقدامات میں شامل ہے۔ اس فیصلے کی بنیاد بھی گمراہ کن دلائل پر مبنی تھی، جن میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ کووڈ 19کی وبا اور عالمی صحت کے دیگر بحرانوں سے نمٹنے میں ادارے کی ناکام رہا اور اس میں فوری اصلاحات کی ضرورت ہے۔‘

اس کے جواب میں عالمی ادارہ صحت نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے یاد دلایا کہ یہ ادارہ ’لاتعداد جانیں بچا چکا ہے اور امریکی شہریوں سمیت تمام لوگوں کو صحت کے خطرات سے محفوظ رکھا ہے۔‘ بیان میں یہ بھی ذکر کیا گیا کہ حالیہ برسوں میں ڈبلیو ایچ او نے اپنی تاریخ کی ’سب سے بڑی اصلاحات کا عمل مکمل کیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ اقدامات کثیرجہتی کے لیے ایک اور دھچکا ثابت ہوئے، جو پہلے ہی گذشتہ دہائی کے دوران امریکہ اور دیگر بڑی یا علاقائی طاقتوں کے یکطرفہ اقدامات کی وجہ سے دباؤ کا شکار ہے۔ ٹرمپ نے کثیر جہتی اداروں کے معاملے میں صبر سے کام نہیں لیا اور ان کی ’امریکہ پہلے‘پالیسی کثیرجہتی پر یقین رکھنے کے اصولوں کے بالکل برعکس ہے۔

شاید عالمی سطح پر ٹرمپ کا سب سے زیادہ انتشار پیدا کرنے والا اقدام وہ دھمکی ہے جس میں چین اور ان ممالک سے درآمدات پر زیادہ ٹیرف عائد کرنے کا ذکر ہے جو امریکہ کے ساتھ تجارتی سرپلس رکھتے ہیں، ان میں امریکہ کے اتحادی بھی شامل ہیں۔ اس اقدام نے تجارتی جنگ میں شدت کے خدشے کو جنم دیا ہے جس سے عالمی معیشت شدید عدم استحکام سے دوچار ہو سکتی ہے۔

اگرچہ ان کے ابتدائی ایگزیکٹیو آرڈرز میں ٹیرف کے بارے میں کوئی فیصلہ شامل نہیں لیکن یہ فیصلے زیر غور ہیں۔ ایک صدارتی میمو میں غیر منصفانہ تجارتی رویوں کے خلاف تادیبی اقدامات اور ’کرنسی میں ہیر پھیر کرنے والے ممالک‘ کی نشاندہی کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

مزید برآں ایک ایکسٹرنل ریونیو سروس قائم کرنے کے ان کے منصوبے اس غلط فہمی کو ظاہر کرتے ہیں کہ صرف دوسرے ممالک ہی بڑھتے ہوئے ٹیرف سے متاثر ہوں گے، حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ امریکی صارفین بھی اس اقدام کے نتیجے میں زیادہ مہنگائی کی صورت میں متاثر ہوں گے۔ مزید یہ کہ ٹرمپ کی تجارتی جنگ کے لیے ٹیرف عائد کرنے کی پالیسی کا سامنا چین اور دیگر تجارتی شراکت داروں کی جوابی کارروائیوں سے ہوگا، جو صورت حال کو مزید پیچیدہ اور نقصان دہ بنا سکتی ہیں۔

ملکی اور بین الاقوامی دونوں محاذوں پر، ٹرمپ کی پالیسیاں انتشار کے ایک نئے دور کا سبب بنیں گی۔ جتنی بےچینی یہ دنیا کے لیے پیدا کر رہی ہیں، امریکیوں کے لیے زیادہ تشویش کا باعث یہ ہے کہ ٹرمپ ان کے ملک کو کس سمت لے جا رہے ہیں۔

ملیحہ لودھی امریکہ، برطانیہ اور اقوام متحدہ میں پاکستانی سفیر رہ چکی ہیں۔ وہ ایکس پر @‌LodhiMaleeha کے نام سے پوسٹ کرتی ہیں۔

بشکریہ عرب نیوز

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر