کرکٹ کی دنیا میں چیمپیئنز ٹرافی کو وہی حیثیت حاصل ہے جو ورلڈکپ کے مقابلوں کو ہے۔
10ویں چیمپیئنز ٹرافی میں 19 فروری سے دنیائے کرکٹ کی آٹھ بہترین ٹیمیں ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہوں گی۔
اگرچہ اس کے انعقاد میں آنے والی رکاوٹیں اب حتمی طور پر ختم ہوچکی ہیں، جو بے یقینی کی کیفیت ایک ماہ قبل تھی اب معدوم پڑگئی ہے اور شائقین کرکٹ کو یقین ہوگیا ہے کہ ان سنسنی خیز مقابلوں کے لیے کسی مزید رکاوٹ کا امکان نہیں ہے۔
انڈیا کے پاکستان نہ جانے کے فیصلے کو کسی بھی طرح دانشمندانہ فیصلہ نہیں کہا جاسکتا لیکن میزبان ملک پاکستان اور انڈیا کے درمیان کرکٹ کے روابط کے انقطاع نے انڈیا کو ایک موقف فراہم کیا کہ ہم جب پاکستان کے ساتھ کسی قسم کی کرکٹ نہیں کھیلتے تو اب کیوں جائیں۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نے کسی ضد پر مبنی رویے کے بجائے ایک مصالحانہ رویہ اختیار کیا اور ہائبرڈ ماڈل کو تسلیم کرلیا۔
یہ اگرچہ اصولی موقف نہیں ہے لیکن وقت کے ساتھ اس میں مزید لچک آنے کی توقع ہے۔ پاکستان بھی اب انڈیا میں کوئی میچ نہیں کھیلے گا لیکن کیا آئی سی سی اس پر عمل درآمد کرا سکے گا؟
پاکستان ٹیم کہاں کھڑی ہے؟
پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے جس ٹیم کے ساتھ چیمپئنز ٹرافی کھیلنے کا اعلان کیا ہے وہ کافی عجیب ہے۔
پاکستان ٹیم نے حال ہی میں دو ایسے ریکارڈ قائم کیے ہیں جس نے نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔
آسٹریلیا کو اس کے ہی ملک میں سیریز ہرانا اور جنوبی افریقہ کو کلین سوئپ کرنے سے پاکستان ٹیم یقینی طور پر ایک مضبوط اورمستند ٹیم بن کر ابھری ہے لیکن مبصرین کے خیال میں آسٹریلیا کی بی ٹیم کھیل رہی تھی اور اسی طرح جنوبی افریقہ کے بھی کچھ اچھے کھلاڑی دستیاب نہیں تھے۔
اس کے ساتھ ٹیسٹ سیریز میں جنوبی افریقہ کے خلاف دونوں ٹیسٹ میں شکست اور ویسٹ انڈیز کے خلاف اپنی ہی سرزمیں پر شکست نے ٹیم کی مستقل مزاجی پر سوال اٹھا دیا ہے۔
پاکستان نے چیمپیئنز ٹرافی کے لیے جو ٹیم منتخب کی ہے اس میں چند کھلاڑیوں کی شمولیت پر بہت تنقید ہو رہی ہے۔
ٹیم میں زیادہ تر وہی کھلاڑی ہیں جو جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز کھیلے تھے لیکن فہیم اشرف اور خوشدل شاہ کی شمولیت پر سب حیران ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فہیم اشرف جنہوں نے آخری بار پاکستان کی طرف سے 2023 ستمبر میں ایشیا کپ میں انڈیاکے خلاف میچ کھیلا تھا جس میں ان کی بولنگ کے وراٹ کوہلی اور کے ایل راہل نے پرخچے اڑا دیے تھے۔
بیٹنگ میں وہ چار رنز کا کارنامہ انجام دے سکے تھے جس کے بعد انہیں ٹیم سے ڈراپ کر دیا گیا۔ وہ ڈومیسٹک میں بھی کچھ نہیں کرسکے۔
پریزیڈنٹ کپ میں انہوں نے 264 رنز بنائے لیکن بولنگ میں صرف چھ وکٹس لے سکے۔ جبکہ ان کی بولنگ کی رفتار بھی اب کم ہوچکی ہے۔ ایک روزہ کرکٹ میں ان کی کارکردگی بہت خراب ہے۔ 34 میچوں میں 10 رنز کی اوسط سے 224 رنز اور محض 26 وکٹیں ان کی بدترین کارکردگی کی آئینہ دار ہیں۔
اسی طرح خوشدل شاہ 10 میچوں میں محض 199 رنز بناسکے ہیں پاکستان کی طرف سے انہوں نے 2022 میں آخری دفعہ نیدرلینڈز کے خلاف میچ کھیلا تھا اور جب سے ٹیم سے باہر ہیں۔
اس دوران انہوں نے ملکی کرکٹ میں کوئی ایسی کارکردگی نہیں دکھائی جو ان کے انتخاب کی وجہ بن سکے لیکن سیلیکٹرز کے پاس جواب نہیں ہے۔ سیلیکٹرز کا کہنا ہے کہ وہ ہارڈ ہٹر ہیں۔
ان کے متعلق یہ کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن وہ ہمیشہ ناکام رہے ہیں۔
پاکستان کی امید فخر زمان
پاکستان ٹیم میں صرف ایک مستند اوپنر فخر زمان ہیں جو چھ ماہ کے بعد ٹیم میں واپس آئے ہیں۔ اگرچہ ان کی فارم بھی خاص نہیں ہے لیکن دوسرے اوپنرز کے مسلسل ناکام ہونے سے انہیں واپسی کا موقع مل گیا ہے۔
ان کے ساتھ اوپننگ کون کرے گا یہ ابھی کسی کو معلوم نہیں۔ ایک سیلیکٹر اسد شفیق نے بلا سوچے سمجھے سعود شکیل کو اوپنر بنانے کا عندیہ دیا تو میڈیا نے بابر اعظم کو اوپنر بنادیا۔
ڈومیسٹک کرکٹ میں عمدہ کارکردگی کے باوجود امام الحق کو منتخب نہیں کیا گیا اور نہ ہی شان مسعود کو جو آس لگائے ہوئے تھے۔ اتنے اہم ایونٹ میں صرف ایک مستند اوپنر ہے اس کا مطلب ہے آپ کو پورے سسٹم میں کوئی دوسرا اوپنر ہی نہیں ملا۔
اس طرح فخر زمان پر دباؤ مزید بڑھ جائے گا۔ ٹیم انتظامیہ سہ فریق سیریز میں کوئی میک شفٹ اوپنر کو آزمائے گی اور اگر وہ کامیاب ہوگیا تو شاید مسئلہ حل ہوجائے لیکن فی الحال اوپننگ ایک گھمبیر مسئلہ بنا ہوا ہے۔
عامر جمال
سب سے زیادہ زیادتی عامر جمال کے ساتھ ہوئی جن کی کارکردگی ایک سال سے بہت نمایاں ہے۔ بولنگ میں ان کی رفتار 140 تک ہے اور بیٹنگ میں وہ جارحانہ اندازسے کھیل سکتے ہیں لیکن نامعلوم وجوہات پر انہیں آخری لمحوں میں کسی دباؤ کے نتیجے میں ڈراپ کردیا گیا۔ شاید حکام بالا کا فہیم اشرف کے لیے بہت دباؤ تھا۔
اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو ٹیم محمد رضوان اور بابر اعظم پر بہت زیادہ بھروسہ کر رہی ہے۔ بابر کی فارم اتنی اچھی نہیں ہے لیکن بابر تکنیکی طور پر سب سے اچھے بلے بازہیں۔
پاکستان کو مڈل آرڈر کا مسئلہ ابھی بھی درپیش رہے گا اگر کامران غلام اور سلمان علی آغا اچھا کھیل گئے تو شاید بات بن جائے۔
پاکستان کی بیٹنگ بنیادی طور پر فخر زمان، بابر اعظم، کامران غلام، محمد رضوان، سلمان علی آغا اور سعود شکیل پر مشتمل ہوگی جبکہ فہیم اشرف کا کرداد فنشر کا ہوگا۔
شاہین شاہ آفریدی، نسیم شاہ اور حارث رؤف فاسٹ بولر ہوں گے جبکہ ابرار احمد واحد سپنر ہوں گے۔
شاید یہاں پاکستان کو ایک اور سپنر درکار تھا۔ سست پچوں پر سپنرز کا کردار بہت اہم ہوگا۔
اگر گذشتہ چیمپیئنز ٹرافی سے موازنہ کریں تو اس ٹیم میں محمد حفیظ جیسا آل راؤنڈر اور شاداب خان جیسا ماہر رسٹ سپنر موجود تھا۔ ان دونوں نے پاکستان کو قیمتی وکٹین دلائیں تھیں۔ جبکہ بیٹنگ میں فخر زمان اور بابر بہت اچھی فارم میں تھے۔ سب سے بڑھ کر ٹائیگر کپتان سرفراز تھا۔ جس کی کرکٹ کی جانکاری بہت تھی۔ رضوان کو سرفراز سے بہت کچھ سیکھنا چاہیے۔
پاکستان کا پہلا میچ نیوزی لینڈ کے ساتھ کراچی میں ہوگا جو شاید مشکل نہ ہو اور بنگلہ دیش کے ساتھ راولپنڈی میں بھی آسان ہو لیکن دبئی میں انڈیا کے ساتھ بہت اہم ہو گا۔
اگر روایتی طور پر میچ ہوا تو نتیجہ انڈیا کے حق میں ہوسکتا ہے اس لیے پاکستان کا سب سے اہم میچ نیوزی لینڈ کے ساتھ ہوگا اور اگر یہ میچ پاکستان نہ جیت سکا تو بات سیمی فائنل سے پہلے ہی ختم ہوجائے گی۔
پاکستان کو کیویز کو قابو کرنے کے لیے سپن کا جال بچھانا ہوگا لیکن دنیا کا سب سے بہترین سپنر مچل سارٹنر مخالف کپتان ہوگا۔
اگر اس کا داؤ چل گیا تو جال اپنے لیے ہی عذاب بن جائے گا۔ پاکستان کو اس میچ میں بہت محنت اور ذہانت دکھانا ہوگی کیونکہ نیوزی لینڈ اس چیمپیئنز ٹرافی کے فیوریٹ میں شامل ہے اور رکی پونٹنگ، سنیل گواسکر اور رمیز راجہ اسے سیمی فائنل میں دیکھ رہے ہیں۔
اگرچہ پاکستان بھی فیوریٹ میں شامل ہے لیکن اپنی غیر مستقل مزاجی کے باعث یہ کبھی امریکہ سے ہار جاتی ہے اور کبھی آسٹریلیا کو ہرا دیتی ہے۔