چھتیس گڑھ میں جھڑپ، 31 ماؤ نواز باغی، دو کمانڈو مارے گئے:پولیس

پولیس کے مطابق علاقے میں مزید کمک بھیجی جا رہی ہے اور سرچ آپریشن کے دوران اموات کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔  

17 جون 2006 کی اس تصویر میں انڈین پولیس کے اہلکار کولکتہ سے تقریباً 200 کلومیٹر مغرب میں مدنا پور ضلع کے بینکشول گاؤں میں پہرے پر کھڑے ہیں۔ گاؤں میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا-مارکسسٹ کے تین کارکنوں کو مشتبہ ماؤ نواز کارکنوں نے قتل کر دیا تھا (دیش کلیان چودھری/ اے ایف پی)

انڈین سکیورٹی فورسز نے اتوار کو ریاست چھتیس گڑھ میں کم از کم 31 ماؤ نواز باغیوں کو مار دیا، جو حکومت کی طویل عرصے سے جاری بغاوت کو کچلنے کی کوششوں میں تیزی کے بعد ہونے والی سب سے خونریز جھڑپوں میں سے ایک ہے۔  

مقامی پولیس کے مطابق لڑائی میں دو انڈین کمانڈوز بھی مارے گئے، جبکہ دو سکیورٹی اہلکار زخمی ہوئے۔

سینیئر پولیس افسر سندر راج پی نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’اب تک 31 ماؤ نواز باغیوں کی لاشیں برآمد کر لی گئی ہیں، جبکہ دو سکیورٹی اہلکار جان سے گئے اور دو زخمی ہوئے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ علاقے میں مزید کمک بھیجی جا رہی ہے اور خبردار کیا کہ پولیس کے سرچ آپریشن کے دوران اموات کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔  

انہوں نے کہا ’مزید فورسز کو تصادم کے مقام پر بھیج دیا گیا ہے۔‘

پولیس کا کہنا ہے کہ مارے جانے والے باغیوں کے قبضے سے خودکار رائفلیں اور گرینیڈ لانچر ملے ہیں۔  

یہ مسلح جھڑپ ریاست چھتیس گڑھ کے بیجاپور ضلعے کے جنگلاتی علاقوں میں ہوئی، جو بغاوت کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔  

ماؤ نواز باغیوں کی دہائیوں سے جاری اس بغاوت میں 10 ہزار سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔ 

باغیوں کا کہنا ہے کہ وہ انڈیا کے وسائل سے مالا مال وسطی علاقوں میں پسماندہ افراد کے حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں۔  

یہ باغی، جنہیں نکسلی بھی کہا جاتا ہے، 1967 میں مغربی بنگال کے ضلع نکسل باڑی میں شروع ہونے والی مسلح تحریک سے جڑے ہوئے ہیں اور چینی انقلابی رہنما ماؤ زے تنگ سے متاثر ہیں۔  

وزیر داخلہ امیت شاہ کے مطابق: ’یہ انڈیا کو نکسلیوں سے آزاد کرانے کی سمت میں ایک بڑی کامیابی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے گذشتہ سال کہا تھا کہ حکومت 2026 تک اس بغاوت کو مکمل طور پر ختم کرنے کی توقع رکھتی ہے۔  

شاہ نے ایک بار پھر اپنے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نکسلیت کو مکمل طور پر جڑ سے ختم کر دیں گے۔‘

حکومتی اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ سال سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں تقریباً 287 ماؤ نواز باغی مارے گئے، جن میں سے اکثریت چھتیس گڑھ میں ماری گئی۔  

پریس ٹرسٹ آف انڈیا نیوز ایجنسی کے مطابق اس سال اب تک 80 سے زائد ماؤ نواز باغی مارے جا چکے ہیں۔  

ماؤ نواز باغی مقامی باشندوں کے لیے زمین، روزگار اور علاقے کے قدرتی وسائل میں حصہ مانگتے ہیں۔  

انہوں نے انڈیا کے مشرقی اور جنوبی علاقوں کی کئی دور دراز برادریوں میں اپنے قدم جما لیے تھے، اور 2000 کی دہائی کے اوائل میں یہ تحریک مزید مضبوط ہو گئی۔  

اس کے بعد نئی دہلی نے اس خطے میں دسیوں ہزار فوجی تعینات کیے، جو ’ریڈ کوریڈور‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔  

اس تنازعے کے دوران سرکاری فورسز پر بھی کئی جان لیوا حملے ہوئے۔ گذشتہ ماہ ایک سڑک کنارے بم دھماکے میں کم از کم نو فوجی مارے گئے تھے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا