پچاس سال سے زائد عرصے کی دلخراش جدائی کے بعد بنگلہ دیش کے شہری کی پاکستان کے ضلع چکوال کے ایک گاؤں میں اپنے خاندان سے دوبارہ ملاقات ہو گئی۔
عرب نیوز کے مطابق اس جذباتی ملاقات کے موقعے پر ڈھول بجا کر خوشی کا اظہار کیا گیا۔
بنگلہ دیشی شہری افتخار حسین اب 60 سال کے ہو چکے ہیں۔ وہ اپنے بچھڑے ہوئے رشتہ داروں سے چوآ گنج علی شاہ نامی گاؤں میں گلے ملے۔ یہ ان کے والد عبدالرؤف کا آبائی گاؤں ہے جو 1971 میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے قبل پاکستان فوج میں تھے۔
اس موقعے پر افتخار حسین کا کہنا تھا کہ ’جس طرح انہوں نے میرا استقبال کیا اس نے مجھے بے حد جذباتی کر دیا۔‘ وہ پاکستانی خاندان کی محبت اور گرمجوشی سے واضح طور پر متاثر نظر آئے۔
’میری خواہش ہے کہ میرا پاکستانی خاندان بنگلہ دیش آئے اور وہاں کے میرے رشتہ دار یہاں آئیں تاکہ ہم اس رشتے کو ہمیشہ قائم رکھ سکیں۔‘
افتخار حسین نے بتایا کہ وہ حال ہی میں بنگلہ دیش میں بینک سے ریٹائر ہوئے جس کے بعد انہوں پاکستان کا سفر اختیار کیا۔
افتخار حسین کے بقول: ’میرے زیادہ تر بڑے رشتہ دار وفات پا چکے ہیں۔ اب بنگلہ دیش میں میرے بس ایک چچا زاد بھائی اور ایک بہن باقی ہیں۔
’یہاں سب مجھے دیکھ کر بے حد خوش ہیں۔ میری خواہش ہے کہ میرا پاکستانی خاندان وہاں (بنگلہ دیش) آئے، اور وہاں کے میرے رشتہ دار یہاں آئیں۔‘
1947 میں قیام کے وقت، پاکستان دو حصوں میں منقسم تھا۔ مغربی پاکستان جو آج کا پاکستان ہے اور مشرقی پاکستان جو اب بنگلہ دیش ہے، دونوں حصوں کو1600 کلومیٹر سے زیادہ کی انڈین سرزمین نے جدا کر رکھا تھا۔ اگرچہ مذہب ایک مشترک قدر تھی لیکن ثقافتی، لسانی اور سیاسی لحاظ سے دونوں علاقے ایک دوسرے سے یکسر مختلف تھے۔
افتخار حسین کے والد نے مشرقی پاکستان میں تعیناتی کے دوران بنگالی خاتون منورہ بیگم سے شادی کر لی۔ اس جوڑے کے پانچ بچے ہوئے جو ایک بار 1969 میں چکوال آئے۔ 1971 کی جنگ نے نہ صرف ملک کو تقسیم کر دیا بلکہ ان کی زندگیوں کو بھی بکھیر کر رکھ دیا۔
افتخار حسین نے بتایا کہ ان کے والد جنگ میں جان سے گئے اور ان کی لاش کبھی نہیں ملی۔ اس سانحے کے بعد ان کی والدہ شدید صدمے میں تھیں اور جنگ کے بعد پیدا ہونے والی کشیدگی کے پیش نظر، انہوں نے اپنے بچوں کے ساتھ بنگلہ دیش میں رہنے کا فیصلہ کر لیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ابتدائی میں دونوں خاندانوں کے درمیان خط و کتابت کے ذریعے رابطہ برقرار رہا لیکن یہ سلسلہ خطرات سے بھرپور تھا کیوں کہ ڈھاکہ سے بھیجے گئے خطوط بنگالی زبان میں ہوتے تھے جب کہ چکوال سے بھیجے گئے خطوط اردو میں ہوتے تھے، جنہیں اکثر ترجمہ کرنے کی ضرورت پیش آتی تھی۔
جب مترجم دستیاب نہ ہوتے تو یہ خط و کتابت مکمل طور پر رک جاتی۔
آفتاب حسین، جو چکوال میں افتخار حسین کے کزن ہیں، نے بتایا کہ جب بھی کسی کے منہ سے ان کے چچا یعنی افتخار حسین کے والد کا نام لیا جاتا، تو پورے خاندان کی آنکھیں اشکبار ہو جاتیں۔
آفتاب حسین نے یاد کرتے ہوئے کہا: ’جب آخرکار ہم ان سے دوبارہ رابطے میں آئے، تو ان کے خطوط بنگالی میں آتے تھے، اور ہمیں انہیں چکوال میں ترجمہ کروانا پڑتا تھا۔‘
’ہم ان خطوط کو اتنی بار پڑھتے کہ آنسوؤں سے ان کی سیاہی ماند پڑ جاتی۔‘
1990 کی دہائی کے اوائل تک، تمام خط کتابت بند ہو چکی تھی، اور دونوں خاندانوں کا آپس میں مکمل طور پر رابطہ منقطع ہو گیا۔
مگر عشروں بعد، سوشل میڈیا نے امید کی ایک نئی کرن جگائی۔
افتخار حسین کے چھوٹے بھائی عبد الخالق نے اپنے والد کی تصاویر فیس بک پر پوسٹ کیں اور چکوال میں موجود اپنے رشتہ داروں کو ڈھونڈنے میں مدد مانگی۔
یہ پوسٹس سوشل میڈیا پر سرگرم چکوال کے مکین ارشد محمود کی نظر میں آئیں جنہوں نے بچھڑے ہوئے خاندان کو دوبارہ ملانے کی ذمہ داری اپنے سر لے لی۔
ارشد محمود کہتے ہیں کہ ’مجھے بے حد خوشی ہے کہ دونوں خاندان ایک بار پھر ایک ہو گئے۔‘